بیرون ممالک میں موجود ہندوستانی نرسوں سے ’کورونا وبا‘ پر راہل گاندھی کی گفتگو، یہاں پڑھیں تفصیل
نیوزی لینڈ سے انو راگنت، آسٹریلیا سے نریندر سنگھ اور انگلینڈ سے شیرلی مول پوراوادی نے راہل گاندھی کے سامنے اپنے تجربات رکھے۔ ہندوستان سے ویپن کرشنن نے بھی کچھ اہم باتیں لوگوں کے سامنے رکھیں۔
کانگریس کے سابق قومی صدر راہل گاندھی نے بیرون ملک میں کورونا سے پیدا حالات کو سمجھنے کے لیے وہاں موجود خدمات انجام دے رہے نرسوں سے آج ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ خصوصی گفتگو کی۔ اس گفتگو میں نیوزی لینڈ سے انو راگنت، آسٹریلیا سے نریندر سنگھ اور انگلینڈ سے شیرلی مول پوراوادی نے شرکت کی۔ ہندوستان سے ویپن کرشنن نے بھی اپنے تجربات لوگوں کے سامنے بیان کیے۔ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ہوئی بات چیت تحریری شکل میں ’قومی آواز‘ کے قارئین کے لیے نیچے پیش خدمت ہے۔
راہل گاندھی: نمستے کیسے ہیں آپ؟
سبھی شرکاء: بالکل ٹھیک
راہل گاندھی: آپ کو دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ اس بحران کے وقت میں ہندوستانی نرسوں کے ذریعہ دنیا بھر میں مدد کرتے دیکھ کر فخر ہوتا ہے۔
سبھی شرکاء: شکریہ۔
راہل گاندھی: ہمیں یہ کہنے کا موقع نہیں ملتا، لیکن آپ ہمارے ملک کے نمائندہ ہیں۔ اس بات پر ہمیں فخر ہے۔ صرف آپ ہی نہیں، بلکہ آپ کے جیسے لاکھوں بھائی بہن ہیں۔ دراصل آپ سے بات کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔
سبھی شرکاء: شکریہ۔ ہمارے لیے بھی فخر کی بات ہے۔
راہل گاندھی: آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے آپ سے بات کیوں کرنی چاہیے۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ آپ میں سے کچھ لوگ بیرون ممالک میں کام کر رہے ہیں، کچھ ہندوستان میں۔ آپ سبھی کا تجربہ الگ ہے۔ میں بات چیت کے ذریعہ سمجھنا چاہتا تھا کہ دنیا کے الگ الگ حصوں میں لوگ کیا دیکھ رہے ہیں، وہ ایک دوسرے کی مدد کیسے کر سکتے ہیں یا آپ ہمارے لوگوں کو یا ہمارے لوگ آپ کو بیرون ممالک میں کیسے صلاح دے سکتے ہیں۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ ایک کمیونٹی کی شکل میں آپ یہ محسوس کریں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ آپ جوکھم بھرا کام کر رہے ہیں؛ یہ آسان کام نہیں ہے اور اس کے لیے آپ اپنی زندگی داؤ پر لگا رہے ہیں۔ آپ دنیا بھر اور ہندوستان میں جو کر رہے ہیں، ہم اس کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ اپنے بارے میں بتائیں۔
شیرلی: میں ہوں شیرلی، میں انگلینڈ، لیورپول میں 21 سال سے ہوں۔
ویپن: راہل جی نمسکار، میں ویپن کرشنن، کیرالہ سے ہوں۔ میں گزشتہ دو سالوں سے دہلی ایمس میں کام کر رہا ہوں۔
راہل گاندھی: ویپن جی آپ کو کورونا ہو گیا؟
ویپن: بدقسمتی سے راہل جی۔
راہل گاندھی: آپ اس بیماری سے دوہرے محاذ پر لڑ رہے ہیں، نجی طور سے اور ایمس کی جانب سے۔
ویپن: میں اور میری بیوی دونوں متاثر ہیں۔ ہم ابھی کوارنٹائن میں ہیں۔
راہل گاندھی: امید کرتا ہوں کہ آپ ابھی ٹھیک ہیں۔
ویپن: جی، میں بالکل ٹھیک ہوں راہل جی، شکریہ۔
راہل گاندھی: یہ تو بہت اچھی بات ہے۔
نریندر: میں نریندر سنگھ، راجستھان کے سیکر ضلع سے ہوں۔ میں 15 سال سے نرسنگ میں کام کر رہا ہوں۔ ملک چھوڑنے سے پہلے میں نے جے پور اور آر ایم ایل اسپتال میں، اور آخری کام میں نے صفدر جنگ میں کیا تھا۔ اب میں چار سال سے آسٹریلیا کے نیو ساؤتھ ویلس لیورپول ہاسپیٹل انٹنسیو کیئر میں کام کر رہا ہوں۔ یہاں ہم کورونا انفیکشن والے مریضوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ ہم نے گزشتہ کچھ مہینوں میں بہت کچھ سیکھا ہے۔
انو راگنت: میرا نام انو راگنت ہے۔ میں نیوزی لینڈ سے ہوں اور میں 2004 میں یہاں آئی تھی۔ میں نارتھ لینڈ ڈسٹرکٹ ہیلتھ بورڈ، وانگاریئی میں بزرگ لوگوں کے ماہر کی شکل میں کام کرتی ہوں۔ ہم ہندوستانی نرسوں سے بات کرنے کے لیے، اپنا وقت دینے کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ۔
راہل گاندھی: جس کا آپ نے سامنے کیا ہے وہ سب سے مشکل وقت ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ آپ میں سے کسی نے بھی ایسا دور دیکھا ہوگا۔ کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ اس بیماری کے صف اول والے محاذ پر رہتے ہوئے آپ کیسا محسوس کر رہے ہوتے ہیں؟
نریندر: جو کووڈ کی شروعات ہوئی تھی تب ہمیں لگا کہ یہ ایک معمولی بخار ہے۔ اور ہم نے سوچا کہ کووڈ کے مقابلے بخار زیادہ لوگوں کو مار رہا ہے۔ اس لیے ہم نے اسے حقیقت میں سنجیدگی سے نہیں لیا۔
ایک بار جب کووڈ بڑھنا شروع ہوا تو اس کے بعد لگاتار خبریں آ رہی ہیں۔ اس کے بعد اٹلی میں مشکل حالات پیدا ہوئے، اور شرح اموات میں دن بہ دن اضافہ۔ تب ہم نے سوچا کہ یہ بخار نہیں ہے، اصل میں یہ ایک سنگین بیماری ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اسے سنجیدگی سے لینا ہوگا اور اس پر تیاری شروع کرنی ہوگی جیسے سبھی مشین، آئی سی یو بنانا، ایک الگ آئی سی یو جو خصوصی طور سے صرف کووڈ مریضوں کے لیے ہی ہو۔
راہل گاندھی: ہاں، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ بہت اچھا کر رہے ہیں۔
نریندر: ہاں، دراصل انھوں نے بہت اچھا کام کیا، میں آپ سے پوری طرح متفق ہوں۔
انو: آکلینڈ، کرائسٹ چرچ، ہیملٹن جیسے شہروں میں بہت بھیڑ ہے۔ اگر نیوزی لینڈ لاپروا ہوتا تو تعداد آسانی سے لاکھوں میں جا سکتی تھی۔ اس لیے جلد سے جلد شروعات اور مشکل فیصلہ لینا وزیر اعظم جیسنڈا کا مقصد تھا۔ جو انھوں نے کر کے بھی دکھایا۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ مشکل ضابطوں کے ساتھ اس حالت سے باہر نکلنا حقیقی معنوں میں درست تھا، جو نیوزی لینڈ میں ٹھیک ثابت ہوا اور وہاں حالات قابو میں آ گئے۔
راہل گاندھی: آپ نے ڈر کا تذکرہ کیا اور ظاہر ہے کہ یہ ان کے درمیان خوف پیدا کرے گا جو سوچتے ہیں کہ وہ بیمار ہونے جا رہے ہیں۔ نرسوں کے درمیان، ڈاکٹروں کے درمیان خوف پیدا کرے گا۔ کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ اسپتالوں میں یہ ڈر کیسا تھا؟ آپ نے کیا محسوس کیا؟ کیا آپ فکر مند تھے کہ کچھ ہو سکتا ہے۔ آپ کے ذہن میں کیا چل رہا تھا؟
شیرلی: میں ایک ایمرجنسی یونٹ میں کام کرتی ہوں۔ اس لیے مریض سیدھے ہمارے پاس آتے ہیں۔ اس لیے شروع میں بہت ڈر تھا۔ وائرس کی زد میں کون آنے والا ہے؟ کیا سبھی مریض اس وائرس کی زد میں ہیں؟ میرا نجی تجربہ ایک مریض کے بارے میں ہے۔ اس میں کووڈ کی کوئی علامت نہیں تھی، اسے صرف دست اور الٹی کی شکایت تھی۔ لیکن اس کے پیٹ میں درد کے سبب میں نے پیٹ اور سینے کا ایکسرے کرانے کی گزارش کی۔ اس کے سینے کا ایکسرے کچھ ہی وقت میں ہو گیا تھا اور یہ سنگین کووڈ ظاہر کر رہا تھا۔ میں گھبرائے ہوئے تو نہیں کہوں گی، لیکن ہم سب محتاط تھے۔
اس لیے میں نے اپنے کلینک کے ڈائریکٹرس سے بات کی اور وہ مارچ کے آغاز کا وقت تھا۔ انگلینڈ میں اس وقت ہم لاک ڈاؤن میں بھی نہیں تھے۔ اس لیے ہمیں پی پی ای، سرجیکل ماسک، ایپرن اور دستانے کا استعمال کرنے کے لیے کہا گیا۔ تب سے میں اس کا استعمال کر رہی ہوں اور ہم اس وقت سے ہر روز مریضوں کو دیکھ رہے تھے اور پھر ہم لاک ڈاؤن میں چلے گئے۔
راہل گاندھی: ایمس میں آپ کا تجربہ کیا رہا؟ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں، کیونکہ باقی جگہ مرض ٹھیک ہو رہا ہے لیکن یہاں اضافہ ہو رہا ہے۔
ویپن: راہل جی آپ ہمارے ملک کی حالت مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ ویسے میں کچھ اعداد و شمار پیش کرنا چاہوں گا۔ ہمارے پاس ہندوستان میں 1.2 ملین رجسٹرڈ ایلوپیتھک ڈاکٹر اور تقریباً 3.7 ملین رجسٹرڈ نرس ہیں۔ اگر تناسب کی بات کریں تو ہندوستان میں ڈکاٹروں کے لیے 1:1500 اور نرس کے لیے 1.7:1000 ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے ذریعہ سفارش کردہ ڈاکٹروں کا تناسب 1:1000 اور نرسوں کا 3:1000 ہے۔ انسانی وسائل کم پڑ رہے ہیں، پھر بھی ہم سخت محنت کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں یہ منظرنامہ پوری طرح سے الگ ہے۔ ہندوستان میں سرکاری اسپتالوں اور پرائیویٹ اسپتالوں کے درمیان بہت فرق ہے۔
راہل گاندھی: آپ کیا فرق دیکھتے ہیں؟
ویپن: اگر ہم پرائیویٹ سیکٹر کی بات کریں تو وہاں بہت تفریقی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ پرائیویٹ نرس کہہ رہی ہیں کہ ان کی تنخواہ میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔ اس وبا کے دوران وہ اپنے گھر والوں کی دیکھ بھال کیسے کریں گے؟ ایسی حالت میں مجھے لگتا ہے کہ سرکار کو ان کی مدد کرنی چاہیے اور ان کو پوری تنخواہ دینی چاہیے۔ اس حالت میں ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہے۔
آپ نے ابھی پوچھا تھا کہ کیا ہم ڈرتے ہیں؟ مجھے نہیں لگتا کہ ہم کورونا وائرس جیسی وبا سے ڈرتے ہیں۔ ملک کو بچانے کے لیے ہمیں ہر محاذ پر لڑنا ہوگا۔ میرے اپنے تجربہ سے پتہ چلا کہ میں ڈرا ہوا نہیں تھا، لیکن اس لیے نہیں کہ میں انفیکشن کا شکار تھا، مجھے اب بھی ڈر نہیں لگ رہا۔ میں آپ کو اور حکومت کو بتانا چاہتا ہوں کہ ایک بار ٹھیک ہونے کے بعد میں واپس کووڈ کے وارڈ میں جانا چاہتا ہوں۔
راہل گاندھی: میں اس بات سے حیران ہوں، اور مجھے بتایا گیا ہے کہ دہلی کے کئی اسپتالوں میں ٹیسٹ کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔
ویپن: یہ صحیح معنوں میں ایک افسوسناک صورت حال ہے۔ میں آپ کو کچھ اعداد و شمار کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ 27 مئی کو دہلی میں انفیکشن کی شرح 13.7 فیصد تھی، جب ہم روزانہ 7 ہزار ٹیسٹ کر رہے تھے۔ 13-12 جون تک ہماری انفیکشن کی شرح 30 فیصد کے اوپر چلی گئی تھی اور ہم روزانہ 5000 ٹیسٹ کر رہے ہیں۔ یہ حیرانی کی بات ہے کہ ہماری شرح اموات اور انفیکشن کی شرح بڑھ رہی ہے، لیکن ہم نے ٹیسٹ کم کر دیے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا راہل جی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔
راہل گاندھی: پرائیویٹ اسپتال کے ایک ڈاکٹر مجھے بتا رہے تھے کہ اگر وہ کورونا انفیکشن کا ٹیسٹ نہیں کر سکتے، تو ان کے لیے کام کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اگر انھیں یہ پتہ نہیں ہے کہ مریض کو کورونا ہے یا نہیں، تو اس کا مطلب انھیں نہیں پتہ کہ اسے کہاں رکھا جائے گا۔ دو مریض جو ایک دوسرے کے ساتھ ہی ہیں، ایک وہ جسے کورونا ہے اور دوسرا جسے کورونا نہیں ہے۔ اس لیے وہ کہہ رہے تھے کہ وہ پوری طرح سے مایوس ہیں کہ ایسے میں کیسے آگے بڑھا جائے۔
مجھے لگتا ہے کہ حکومتیں اس سوچ کو مینیج کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، یا وہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ مسئلہ اتنا بھی بڑا نہیں ہے جتنا وہ نظر آ رہا ہے۔ لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ ہمیں مسئلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے لیے اس مسئلہ کو قبول کرنا ضروری ہے، صحیح ڈھنگ سے متعارف کرنا اور پھر اس مسئلہ سے لڑنا چاہیے۔ مجھے نہیں پتہ کہ آپ اس پر کیسا رد عمل دیں گے۔
ویپن: بالکل درست بات۔ ہم ایک وبا کی حالت میں ہیں اور ایمس ڈائریکٹر نے بھی کہا ہے کہ ہم جولائی کے وسط میں عروج پر پہنچ جائیں گے۔ یہاں تک کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ نے بھی کہا ہے کہ وہ 5.5 لاکھ انفیکشن کے معاملوں کی امید کر رہے ہیں۔ ہم دہلی میں 10 ہزار بستر لگا رہے ہیں۔ کیا آپ اس حالت کی گہرائی کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جہاں 5.5 لاکھ لوگ آ رہے ہیں، بے شک وہ ایک ہی وقت پر نہیں آئیں گے، لیکن ایک دن میں اوسطاً 1 الکھ مریض۔ میں حالات کی گہرائی کا اندازہ نہیں کر پا رہا ہوں۔ ہم کیا کریں گے؟
راہل گاندھی: باہر کے لوگوں کا اس پر کیا رد عمل ہے؟
انو: میں ویپن سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ تو اس وقت چھٹی پر ہیں۔ کیا آپ کو تنخواہ مل رہی ہے یا کیا وہ اب بھی آپ کو اتنی طویل چھٹی کے لیے تنخواہ دے رہے ہیں؟
ویپن: حال ہی میں ادارہ نے بتایا ہے کہ آپ کی ادائیگی ہو رہی ہے، چونکہ یہ ایک وبا ہے، اس لیے بہت سے لوگ انفیکشن کے شکار ہو رہے ہیں، خصوصی طور سے طبی اہلکار۔ میں ان کے بارے میں فکر مند ہوں، لیکن وہ سب ابھی کہہ رہے ہیں کہ ادائیگی ہو رہی ہے، لیکن مجھے نہیں پتہ کہ آنے والے وقت میں کیا ہوگا۔
انو: آپ کے لیے ٹیسٹ کرانا کتنا آسان تھا؟ کیا یہ آپ کے لیے صرف ٹھیک تھا یا بہت آسان؟
ویپن: میرے وقت میں حالات تھوڑے ٹھیک تھے، لیکن جب بیوی کی باری آئی تو اسے پورے 10 گھنٹے انتظار کرنا پڑا تھا۔ یہ میرے لیے تھوڑا فکرانگیز اور افسوسناک تھا۔
انو: ہاں بالکل، ایک فیملی کی شکل میں یہ کافی پریشان کرنے والی بات ہے۔
نریندر: میں ایک بات یہاں جوڑنا چاہتا ہوں، آپ کہتے ہیں کہ ٹیسٹ کرانا بہت مشکل ہے۔ ہاں، اس لیے جیسا کہ راہل جی نے تذکرہ کیا ہے کہ آپ پرائیویٹ اسپتال جاتے ہیں تو وہ اس کا ٹیسٹ نہیں کر سکتے۔ پرائیویٹ اسپتال جا کر بھی آپ ٹیسٹ نہیں کرا سکتے ہیں، تو مینیج کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ یہ آپ کے ذریعہ باقی ملازمین تک پھیل سکتا ہے اور پورا اسپتال زد میں آ سکتا ہے۔ اس لیے ٹیسٹ بہت اہم ہے، جتنا کہ کووڈ-19 کو روکنے کے لیے سوشل ڈسٹنسنگ یا کوئی دیگر ترکیب۔
راہل گاندھی: آپ لوگ جو بیرون ممالک میں ہیں، اس وبا سے آپ کو سب سے بڑا سبق کیا ملا؟ آپ ہندوستان اسپتال، نرس، ڈاکٹرس کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟ آپ کے حساب سے وہ اہم چیزیں کون سی ہیں جن کا ہمیں دھیان رکھنا ہوگا؟
نریندر: اپنے ہاتھ دھونا۔ دن میں کئی بار صحیح طریقے سے ہاتھ دھونا، جیسے کہ میں 12 گھنٹے کی شفٹ کرتا ہوں، ہم کئی بار اپنے ہاتھوں کو دھوتے ہیں۔ صحیح پی پی ای کٹ پہننا بھی ضروری ہے۔ دراصل یہ میرا نظریہ ہے۔ دہلی میں کام کرنے والے میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ بہت سارے ملازم اور ڈاکٹر اب انفیکشن کے شکار ہو رہے ہیں، جن میں سے ایک ویپن بھی ہے۔ یہ بہت فکر انگیز بات ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کہیں کچھ کمی ہے۔ یا تو ہم پی پی ای کٹ کو ٹھیک سے نہیں پہن رہے، یا ہم ہینڈ سینیٹائزر کا استعمال ٹھیک سے نہیں کر پا رہے، یا ہم خود کو ٹھیک سے آئسولیٹ نہیں کر پا رہے ہیں۔
راہل گاندھی: آپ کے بھی بچے ہوں گے۔ وہ بہت فکرمند ہوں گے کہ آپ اسپتال میں جا رہے ہیں جہاں ہر کسی کو کورونا ہے۔ کیا کوئی اور اس بارے میں بتا سکتا ہے؟
شیرلی: میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ میرے شوہر واقعی میں بڑے خطرے کی زد میں ہیں اور وہ الگ تھے۔ کیونکہ میں کورونا مریضوں کے ساتھ کام کر رہی ہوں، اس لیے مجھے اپنے شوہر اور میرے بچوں کو چھوڑ کر چھ ہفتہ کے لیے اپنے گھر سے باہر جانا پڑا۔ اب میں واپس آ گئی۔ دو ہفتے پہلے میں گھر واپس گئی کیونکہ متاثرین کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ اسپتال میں مریضوں کی تعداد اب کم ہونے سے میرا مینجمنٹ تعاون کر رہا ہے۔
راہل گاندھی: تو آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو حکومت تعاون کر رہی ہے؟ کیا آپ ایمس میں بھی ایسا محسوس کرتے ہیں؟
ویپن: راہل جی میں آپ کو کچھ بتانا چاہوں گا۔ یہ اہم اور فکر انگیز بات ہے۔ دہلی میں دو نرسوں کی ومت ہو گئی ہے۔ وہ جنوبی ہندوستان کی تھیں اور ایک ایکسرے ٹیکنیشین تھیں۔ ایمس کے ایک سبکدوش ڈاکٹر کا بھی انتقال ہو گیا اور صفائی محکمہ میں خدمات انجام دے رہے شخص کو ہم نے بدقسمتی سے کھو دیا۔ انھیں دہلی حکومت کے ذریعہ اعلان کردہ 1 کروڑ روپے کا معاوضہ ملنا باقی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم کچھ رقم دے کر ان کی موت کی بھرپائی کر سکتے ہیں۔ لیکن کم از کم ہم ان کی فیملی کی مدد کر سکتے ہیں۔ حکومت کو ان کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ میں یہ سب آپ کے دھیان میں اس لیے لانا چاہتا ہوں کیونکہ آپ اس وقت اپوزیشن کے لیڈر ہیں۔
راہل گاندھی: میں ایک خط لکھوں گا اور پھر دیکھتے ہیں کہ کیا ہم اس میں تیزی لا سکتے ہیں۔
ویپن: دوسری بات، نرس اور ڈاکٹر حکومت ہند کے جوکھم والے درجے میں نہیں آتے ہیں۔ بہادر فوجیوں کی طرح آگے رہ کر ہم طبی اہلکار کی شکل میں اس کورونا سے لڑ رہے ہیں۔ جیسا کہ ہم اسے نامیاتی جنگ مان سکتے ہیں۔ لیکن یہ ایک نامیاتی جنگ نہیں ہے بلکہ ایک وائرس ہے، ایک چھوٹا باریک وائرس جو پوری دنیا اور ملک کو چیلنج دے رہا ہے۔ اس لیے ہم فوجی کی طرح لڑ رہے ہیں۔ میں اس کا موازنہ ہمارے جانباز فوجیوں سے نہیں کر رہا ہوں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ آپ اس بات سے متفق ہوں گے کہ ہم ایک فوج کی شکل میں ہی یہ لڑائی لڑ رہے ہیں۔
راہل گاندھی: ہاں بالکل، اس وقت آپ ایک غیر تشدد فوج ہی ہیں۔
ویپن: شکریہ راہل جی۔ میں آپ کے ذہن میں ایک بات مزید لانا چاہتا ہوں کہ نرسوں اور ڈاکٹروں کو کم از کم اس وقت جوکھم بھتہ دیا جانا چاہیے کیونکہ ہم کئی زندگیوں کو کھو رہے ہیں۔ ہم تھک گئے ہیں، لیکن ہم بغیر کسی خوف کے آگے آ کر لڑ رہے ہیں۔ آپ اور حکومت ہمارے ساتھ ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہم کورونا وائرس کے خلاف اس جنگ کو لڑیں گے اور جیتیں گے۔
راہل گاندھی: میں آپ سبھی سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کی فیملی، بچے سب اس کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں۔ آپ ان کی دیکھ بھال کیسے کر رہے ہیں؟ کیونکہ انھیں فکر تو ہوتی ہوگی کہ ان کے ماں اور باپ اس وبا کے درمیان کام کر رہے ہیں۔ آپ کیسے یہ سب سنبھال رہے ہیں؟
انو: نیوزی لینڈ حکومت کے وزیر صحت کے ذریعہ اعلان کردہ پہلی چیزوں میں سے ایک ہیلتھ کارکنان کے لیے 10 ملین کا پیکیج تھا۔ اس میں ہاؤس الاؤنس بھی شامل ہے۔ شیرل کی طرح ہی اگر آپ فیملی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے گھر واپس نہیں جانا چاہتے ہیں تو آپ یا تو اسپتال میں یا پاس کے کسی ہوٹل میں رہ سکتے ہیں اور حکومت اس کے لیے ادائیگی کرے گی۔ باقی ٹیم کی بات سن کر مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ہم واقعی میں ایک اچھی حالت میں ہیں۔
راہل گاندھی: تو آپ ایک بات بتائیے کہ ایسا کیوں ہے کہ بیرون ملک میں ہندوستانی نرسوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ سب کیا ہے، میں جہاں بھی گیا، جب میں مشرقی وسطیٰ میں گیا اور وہ مجھے وہاں ایک اسپتال میں لے گئے اور انھوں نے کہا کہ اگر ہمارے پاس ہندوستانی نرس نہیں ہو تو ہم اپنا اسپتال نہیں چلا سکتے ہیں۔
شیرل: مجھے یہ کہنا ہی ہوگا کہ ہندوستانی نرسیں بہت محنتی ہیں۔ وہ اپنے کام کے لیے، اپنی زندگی تک قربان کر دیتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں، انھیں اپنی پروا بالکل نہیں ہے۔ وہ اپنے سامنے مریضوں کو اپنے والدین، بچوں، ماں، بھائی یا بہن کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ شاید یہی بات سب سے اہم ہے۔
انو: بہت سارے کووڈ وارڈ ہیں جہاں ہندوستانی نرس صرف علاج تک محدود نہیں ہیں، وہ پالیسی اور منصوبہ بنانے میں شامل ہیں۔ یقینی طور پر کافی تعداد میں ہندوستانی نرس ان سب میں پیش پیش ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم صف اول میں کھڑے ہیں۔ جس طرح سے ہمارے نصاب میں یہ ہمیں سکھایا جاتا ہے،ک مجھے لگتا ہے کہ ہم کسی بھی حالت میں، کسی بھی ملک میں کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہماری بنیاد سے ہمیں مضبوطی ملتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہندوستانی نرسوں کے لیے کسی بھی شعبہ میں کام کرنا آسان ہے۔
راہل گاندھی: اور اس لڑائی کو لڑ رہے ہندوستانی نرسوں اور ڈاکٹروں کی مدد ہم کیسے کر سکتے ہیں، پھر چاہے وہ بیرون ملک میں ہوں یا ہندوستان میں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں آپ کی مدد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ آپ کی مدد کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
نریندر: ہم سے یہ پوچھنے کے لیے آپ کا شکریہ۔ برائے کرم ہم سے بات کرتے رہیں تاکہ ہم اپنے تجربات آپ سے شیئر کرتے رہیں گے اور آپ اپنا تجربہ ہمیں بتائیں گے۔ ہم ہمیشہ ہندوستان سے محبت کرتے ہیں۔ بہت اچھا لگا کہ آپ نے ہم سے بات کی۔
ویپن: مجھے نہیں لگتا کہ پالیسی بنانے میں ہماری کوئی آواز بھی سنی جا رہی ہے۔ جب نرسنگ پیشے یا ڈاکٹر پیشہ سے متعلق پالیسی بنائی جا رہی ہے تو اس پیشے کے ماہرین سے ان کے ان پٹ لیے جانے چاہئیں۔ تب پالیسیاں بننی چاہئیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوا ہے۔ جب پالیسیوں سے متعلق فیصلہ لینے کی بات آتی ہے تو کئی اداروں کے لیڈروں کو بلایا بھی نہیں جاتا ہے۔
راہل گاندھی: کورونا کی اس لڑائی میں، کیا کوئی ایسا تجربہ تھا جو آپ کے لیے مثبت تھا؟ اگر تھا تو یہ بہت خوشی کی بات ہے۔ کیا آپ اس طرح کے ایک تجربہ کے بارے میں بتا سکتے ہیں؟
انو: مجھے لگتا ہے کہ یہاں اور نیوزی لینڈ میں بھی، حکومت اور ہیلتھ کیئر کارکنان کے درمیان اس طرح کی بات چیت واقعی میں اچھی تھی۔ ان پانچ ہفتوں کے دوران روزانہ دوپہر ایک بجے، ہمارے وزیر صحت اور ہمارے صدر آ کر پریس کانفرنس کرتے تھے اور مجھے لگتا ہے کہ تقریباً سبھی نیوزی لینڈ باشندے ان اعداد و شمار کو سننے کے لیے پرجوش ہوتے ہوں گے۔ اور خود صدر، جنھوں نے ہمیں اس لڑائی میں حصہ لینے اور جیتنے کے لیے ہمیں ذمہ دار محسوس کرایا۔ بحران کے وقت میں بھی ان کی قیادت کا طریقہ ہمدردی والا تھا۔
شیرلی: ہاں، میرا بھی تجربہ مثبت ہے۔ میں آپ کے بارے میں کچھ کہنا چاہوں گی۔ ہفتہ کے آخر میں اس کورونا وبا کے دوران آپ ایک وسیع طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ میں نے جس کووڈ یونٹ میں کام کیا، اس میں سے کسی بھی نرس کو کورونا نہیں تھا۔ یہ ہمارے لیے اتنی شاندار خبر تھی کیونکہ ہمارے 20 مریض تھے اور سبھی مریض کورونا پازیٹو تھے۔ کسی بھی نرس کو کورونا نہیں تھا۔ تو ہمارے لیے یہ ایک اچھی اور شاندار خبر تھی۔
راہل گاندھی: تو ان سب میں میرا آخری سوال یہ ہے کہ غیر کورونا مریضوں کو ایک مشکل ہو رہی ہے، کیونکہ اسپتال میں تو کورونا والے مریضوں کی کثرت ہے۔
شیرل: سب نہیں، اور نہ سب اسپتالوں میں۔ ہمارے پاس اپنے حادثاتی اور ایمرجنسی محکمے ہیں جن میں ایک ریڈ زون ہے اور ایک گرین زون ہے۔ جن مریضوں میں کووڈ کی علامت ہوتی ہے انھیں ریڈ زون میں بھیج دیا جاتا ہے اور دیگر مریض جن میں کووڈ کی علامت نہیں ہوتی، انھیں گرین زون میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ایسے میں جب کہ سب ٹھیک ہو رہے ہیں، ہر کسی کا ٹیسٹ بھی ہو رہا ہے، تو یہ واحد طریقہ ہے جسے ہم جانتے ہیں اور اب ہمیں زیادہ مریض نہیں نظر آ رہے ہیں۔
ویپن: مجھے لگتا ہے کہ آپ کا سوال ہندوستان کے لیے زیادہ اہم ہے۔ کئی سرکاری اسپتالوں میں او پی ڈی کام نہیں کر رہا۔ اب ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ غیر کورونا مریضوں کی مدد کیسے کی جائے۔ مجھے بھی فون آتے ہیں، کینسر کے مریض مدد کے لیے کہتے ہیں، لیکن ہم ان کی مدد کرنے میں ناکام ہیں۔ صرف ایمس میں ہی نہیں بلکہ زیادہ سرکاری اسپتالوں میں زیادہ تر بیڈ کورونا مریضوں کے لیے الاٹ کیے جا رہے ہیں۔
راہل گاندھی: مجھے لگتا ہے اہم یہ ہے کہ لوگ الگ الگ طرح کی آوازیں سنیں۔ اس لیے میں یہ بات چیت کر رہا ہوں، چاہے یہ نرسوں یا کسی بھی سیکٹر کے ماہرین کے ساتھ ہو یا پھر مزدوروں سے ہو۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان کے پاس بھی اپنی آواز ہے جو سنی جانی چاہیے۔ اس لیے آپ نے اس پر کافی اچھا نظریہ پیش کیا ہے۔
نریندر: اس لیے، اگر ہم سب ایک ٹیم کی شکل میں کام کرتے ہیں تو جلد ہی کووڈ-19 کے خلاف یہ جنگ جیت سکتے ہیں۔
راہل گاندھی: آپ سبھی کو اپنا وقت دینے کے لیے بہت بہت شکریہ۔ مجھے پتہ ہے کہ یہ بہت قیمتی ہے، کیونکہ آپ کورونا کے خلاف لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اس لیے شکریہ، اور مجھے بہت فخر ہے آپ جو کام کر رہے ہیں۔ صرف آپ ہی نہیں بلکہ آپ کے جیسے لاکھوں نرس اور ڈاکٹر جو ہمارے ملک سے ہیں۔
ویپن: اپنا قیمتی وقت دینے اور اس بات چیت کے لیے شکریہ راہل جی۔
انو: وائناڈ کے لیے آپ نے جو کچھ کیا ہے، اس کے لیے شکریہ، مجھے بھی یہی کہنا تھا۔
سبھی شرکاء: شکریہ
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔