رافیل سے گھبرائی مودی حکومت نے اڈانی کو ’رائفل معاہدہ‘ سے کیا باہر
رافیل معاہدہ میں بدنامی کے بعد مودی حکومت نے فوج کے لیے اے.کے.-103 رائفل سپلائی کرنے کے ٹھیکہ میں اڈانی گروپ کو شراکت دار بنانے کا روس کا مطالبہ مسترد کر دیا۔
رافیل معاہدہ پر اپوزیشن کے ذریعہ بی جے پی کو ڈالی گئی نکیل کے بعد مرکزی حکومت بہت محتاط ہو گئی ہے اور اس کا اثر صاف نظر آ رہا ہے۔ مرکزی حکومت نے روس کے اس مطالبہ کو مسترد کر دیا ہے جس میں اس نے ہندوستانی فوج کے لیے دستیاب کرائی جانے والی اے.کے.-103 رائفل معاہدہ میں اڈانی گروپ کی کمپنی کو شراکت دار بنانے کی گزارش کی تھی۔
رافیل معاہدہ میں بدنامی ہونے کے بعد کسی بھی دفاعی معاہدے میں اب مرکز کی مودی حکومت پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے۔ ’انڈین ایکسپریس‘ کی خبر کے مطابق ہندوستان نے فوج کے لیے اے.کے.-103 رائفل سپلائی کرنے کے ٹھیکے میں روس کو اڈانی گروپ کو اپنا شراکت دار بنانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔
دراصل روس کو 3000 کروڑ روپے میں ہندوستانی فوج کے لیے اے کے103 اسالٹ رائفل بنانے کا ٹھیکہ ملا ہے۔ روس نے مرکز کی مودی حکومت سے ان رائفلوں کے پروڈکشن کے لیے اڈانی گروپ کو اپنا پارٹنر بنانے کی گزارش کی تھی۔ ایسی شراکت داری کو آفسیٹ معاہدہ کہا جاتا ہے جو رافیل معاہدے میں فرانس کی ڈسالٹ کمپنی نے انل امبانی گروپ کی ریلائنس ڈیفنس کے ساتھ کیا ہے۔ روس کی جانب سے ایسی ہی تجویز ملنے پر مودی حکومت نے ماسکو کے اس مشورے کو مسترد کر دیا۔
اس سال اپریل میں دونوں ممالک کے درمیان اے کے-103 اسالٹ رائفل کا پروڈکشن روس کی کلاشنکوو کنسرن کمپنی کے ذریعہ کیے جانے پر معاہدہ ہوا تھا۔ معاہدے کے مطابق اس قرار میں ہندوستان کی کوئی سرکاری اسلحہ فیکٹری شراکت دار ہو سکتی ہے۔ لیکن روس نے رائفل پروڈکشن کے لیے ہندوستان کے اڈانی گروپ کی کمپنی کو اپنا شراکت دار بنانے کی تجویز دی۔ روس کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تحت مشترکہ پروڈکشن کے لیے اس کے پاس ہندوستانی کمپنی کے انتخاب کا متبادل نہیں ہے۔
لیکن وزارت دفاع نے اگست میں روس کی اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ انڈین ایکسپریس نے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ ہندوستان نے اس بابت روس کو بتا دیا ہے کہ اگر وہ اڈانی گروپ کو شراکت دار بنانے پر زور ڈالیں گے تو انھیں ٹنڈر عمل کے طور طریقے اختیار کرنے ہوں گے۔ ساتھ ہی اس کے لیے ٹنڈر بھرنا ہوگا۔
غور طلب ہے کہ حکومت ہند اپنے ’امیک اِن انڈیا‘ پروگرام کے تحت دفاعی پروڈکشن کے سیکٹر میں پرائیویٹ کمپنیوں کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ لیکن رافیل طیارہ معاہدہ میں انل امبانی کی ملکیت والی ریلائنس ڈیفنس کو شامل کرنے سے پیدا ہوئے تنازعہ کے بعد حکومت کافی احتیاط برت رہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ فرنچ کمپنی ڈسالٹ کو ریلائنس ڈیفنس کو اپنا پارٹنر منتخب کرنے کی اجازت دی گئی تھی کیونکہ بیرون ملکی کمپنی کو ریلائنس کے ساتھ مشترکہ پروڈکشن اور تکنیک منتقلی جیسی شرطوں پر عمل نہیں کرنا تھا۔
کانگریس نے حکومت کے اس فیصلے کو دباؤ کا نتیجہ بتایا ہے۔ کانگریس نے کہا ہے کہ ’’کیا رافیل معاہدہ میں قلعی کھلنے سے مودی حکومت ڈر گئی ہے؟ سارے قانون و ضابطے طاق پر رکھ کر رافیل معاہدے میں پرائیویٹ کمپنی کو لاکھوں کروڑ کا فائدہ دلوانے والی مودی حکومت کو اب اے کے-103 اسالٹ رائفل سودے میں قانون اور ضابطے یاد آ رہے ہیں۔‘‘
اے.کے.-103 اسالٹ رائفل سے متعلق معاہدہ کو اکتوبر سے قبل انجام تک پہنچایا جانا تھا، لیکن اڈانی گروپ والی بات سامنے آنے کے بعد اب اس میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ اپریل میں مرکزی وزیر دفاع نرملا سیتا رمن کے ماسکو دورہ کے دوران ہزاروں کروڑ کے اس دفاعی معاہدہ پر اتفاق قائم ہوا تھا۔ ایک اے.کے.-103 اسالٹ رائفل کی قیمت تقریباً 50 ہزار روپے ہے۔ اس معاہدے کے تحت ہندوستان اپنی فوج کے لیے روس سے تقریباً 6 لاکھ اے.کے.-103 اسالٹ رائفل خریدے گا۔
قابل غور ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اکتوبر میں روس کے دورہ پر جانے والے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔