پلوامہ حملہ: جیش محمد سربراہ مسعود اظہر سمیت 19 ملزمان کے خلاف فرد جرم داخل
19 ملزمین میں سے 7 پاکستانی جبکہ ایک جواں سال خاتون سمیت 12 دیگر کشمیری ہیں۔ خود کش دھماکہ کرنے والے عادل احمد ڈار سمیت 6 ملزمین ایسے ہیں جو پہلے ہی مارے جاچکے ہیں۔
جموں: گزشتہ برس 14 فروری کو ہونے والے پلوامہ حملے کی تفتیش کرنے والے ادارے نیشنل انوسٹگیشن ایجنسی (این آئی اے) نے منگل کو یہاں خصوصی این آئی اے عدالت میں جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر، ان کے بھائیوں عبدالرئوف اصغر و عمار علوی اور بھتیجے عمر فاروق سمیت 19 ملزمان کے خلاف فرد جرم داخل کر دی ہے۔ ان 19 ملزمان میں سے سات پاکستانی جبکہ ایک جواں سال خاتون سمیت 12 دیگر کشمیری ہیں۔ خود کش دھماکہ کرنے والے عادل احمد ڈار سمیت چھ ملزمین ایسے ہیں جو پہلے ہی مارے جاچکے ہیں۔ کم از کم سات ملزمان کو مفرور قرار دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے لیتہ پورہ علاقے میں گزشتہ برس 14 فروری کو کشمیر شاہراہ پر ایک زوردار دھماکہ ہوا تھا۔ یہ وادی میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا خود کش دھماکہ تھا جس کو پلوامہ کے کاکہ پورہ سے تعلق رکھنے والے اکیس سالہ عادل احمد ڈار عرف وقاص نے انجام دیا تھا اور جس کے نتیجے میں سی آر پی ایف کے زائد از چالیس اہلکار از جان ہوئے تھے۔
حملے کے قریب ڈیڑھ سال بعد داخل کی گئی 'چارج شیٹ' یا 'فرد جرم' 13 ہزار 800 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں مسعود اظہر اور ان کے بھائی عبدالرئوف اصغر کو 'پلوامہ حملے' کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا ہے۔ فرد جرم میں ملزمین کے خلاف رنبیر پینل کوڈ کی مختلف دفعات، آرمز ایکٹ، دھماکہ خیز مادہ ایکٹ، فارنرز ایکٹ اور جموں و کشمیر پبلک پراپرٹی ایکٹ کے تحت الزامات عائد کئے ہیں۔
فرد جرم میں قریب چھ ایسے کشمیریوں کے نام شامل ہیں جن پر حملہ کرنے والوں کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کا الزام ہے۔ فرد جرم میں ضلع پلوامہ کے کاکہ پورہ سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ انشا جان اور ان کے والد طارق احمد شاہ کا نام بھی شامل ہیں۔ دونوں کو این آئی اے نے رواں سال مارچ کے پہلے ہفتے میں گرفتار کیا تھا۔ جیش محمد نے عادل احمد ڈار کی جو ویڈیو جاری کی تھی وہ مبینہ طور پر ان کے ہی گھر میں بنائی گئی تھی۔
فرد جرم میں تفصیلاً کہا گیا ہے کہ اس ہلاکت خیز حملے کی منصوبہ بندی کیسے کی گئی تھی اور اس کو کس طرح انجام دیا گیا تھا۔ فرد جرم میں این آئی اے نے کہا ہے کہ اس کے پاس حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد ہیں۔ یہ شواہد کال ریکارڈنگ، واٹس ایپ چیٹنگ اور جیش محمد کے مہلوک پاکستانی کمانڈر عمر فاروق کے موبائل فون سے ملنے واے ثبوتوں پر مشتمل ہیں۔
فرد جرم میں مسعود اظہر کے ویڈیو اور آڈیو بیانات، جس میں انہوں نے پلوامہ حملے اور اس کو انجام دینے والوں کو سراہا تھا، کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حملے کے بعد جیش محمد کی جانب سے سوشل میڈیا پر لکھی گئی تحروں کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔
پلوامہ حملے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کی قیادت این آئی اے کے جوائنٹ ڈائریکٹر انیل شکلا کررہے تھے۔ فرد جرم میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ حملے انجام دینے کے لئے کس طرح بیٹریوں، موبائل فونوں اور دیگر چیزوں کی آن لائن خریداری کی گئی۔ جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر بھارت میں پہلے سے کئی ایک مقدموں بشمول ممبئی حملے میں سکیورٹی اداروں کو مطلوب ہیں۔ انہوں نے کالعدم تنظیم جیش محمد کو سنہ 2000 میں معرض وجود میں لایا تھا۔
گزشتہ برس 14 فروری کو پلوامہ حملہ وقوع پذیر ہونے کے بعد دو روایتی حریف اور ایٹمی ممالک ہندوستان اور پاکستان ایک اور جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ ہندوستان نے انتقامی کارروائی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے 26 فروری کو پاکستان کے اندر گھس کر بالاکوٹ پر حملہ کیا تھا اور پاکستان نے بھی اگلے ہی روز جموں کشمیر میں داخل ہو کر جوابی کارروائی عمل میں لائی تھی اس دوران پاکستان نے ہندوستان کا ایک جنگی طیارہ گرا کر ونگ کمانڈر ابھی نندن کو گرفتار کیا تھا تاہم بعد ازاں پاکستان نے ابھی نندن کو بغیر کسی شرط کے اپنے ملک کے حوالے کیا تھا۔ سال 1971 کے بعد پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ دونوں ممالک کے جنگی طیاروں نے ایک دوسرے کی سرحدوں کو پار کر کے کارروائیاں کی تھیں۔
پلوامہ حملے کے بعد جہاں سری نگر – جموں قومی شاہراہ پر سیکورٹی فورسز کانوائے کی آمد ورفت کے لئے دو دن مخصوص رکھے گئے وہیں ملک کی دوسری ریاستوں میں مقیم کشمیریوں، خواہ وہ طلبا تھے یا تجار، مزدور تھے یا ملازمین، کا قافیہ حیات تنگ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں کئی طلبا اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر گھر واپس لوٹے تھے۔ جموں کشمیر کے سیاسی حالات پر دقیق نظر رکھنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ جموں کشمیر کے سیاسی منظر نامے کے بارے میں مرکزی حکومت کے تاریخی فیصلہ جات جن میں آئینی دفعات 370 و 35 اے کی منسوخی اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنا شامل ہے، کا اصل محرک پلوامہ حملہ ہی ہے۔
پلوامہ حملے کا ہی نتیجہ ہے کہ وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کئے گئے ایک حکمنامے کے مطابق سلام آباد (اوڑی) اور چکن دا باغ (پونچھ) کرسنگ پوائنٹس پر ہند – پاک دو طرفہ تجارت تاحکم ثانی معطل کیا گیا۔ حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ یہ تجارت غیر قانونی سرگرمیوں کے لئے استعمال کی جارہی ہے۔ تب سے لیکر اب تک سری نگر – مظفر آباد اور پوچھ – راولا کوٹ بس سروسز بھی معطل ہی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ پلوامہ حملے کی جہاں مین اسٹریم جماعتوں نے شدید الفاظ میں مذمت کی تھی وہیں مزاحمتی قائدین نے بھی اس حملے میں جاں بحق ہوئے سی آر پی ایف اہلکاروں کے کنبوں کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔