مودی حکومت میں بینکوں کو لگا 3.16 لاکھ کروڑ کا چونا: آر بی آئی رپورٹ
گزشتہ چار سالوں میں بینکوں نے جتنے قرض کی وصولی کی ہے اس سے سات گنا زیادہ انھوں نے ’رائٹ آف‘ کر دیا ہے، یعنی قرض کو ’بٹّا کھاتہ‘ میں ڈال دیا ہے۔
ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے ایک اعداد و شمار جاری کیا ہے جس سے مودی حکومت کی معاشی شعبہ میں ایک اور ناکامی منظر عام پر آ رہی ہے۔ آر بی آئی کے مطابق گزشتہ چار سال میں پبلک سیکٹر بینکوں نے جتنے قرض کی وصولی کی ہے اس سے سات گنا زیادہ انھوں نے بٹّا کھاتہ میں ڈال دیا ہے۔ یہ اعداد و شمار اپریل 2014 سے اپریل 2018 کے درمیان کے ہیں ۔ یہاں یہ واضح رہے کہ قرض ’رائٹ آف‘ کرنے یا بٹّا کھاتہ میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی وصولی کیے بغیر بینک کے اکاؤنٹ سے اسے باہر کر دیا جائے۔
آر بی آئی کا کہنا ہے کہ ان چار سالوں میں ملک کے 21 پبلک سیکٹر بینکوں نے 316500 کروڑ روپے کے لوٹ کو ’رائٹ آف‘ کیا ہے یعنی بٹّا کھاتہ میں ڈال دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں بینکوں نے مجموعی طور پر اس دوران محض 44900 کروڑ روپے قرض کی وصولی کی ہے۔ انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ نے اس تعلق سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ جتنا قرض بٹّا کھاتہ میں ڈالاگیا ہے وہ اس سال یعنی 19-2018 میں صحت، تعلیم اور سماجی سیکورٹی پر طے کل بجٹ 1.38 لاکھ کروڑ روپے کے دوگنے سے بھی زیادہ ہے۔
اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد کانگریس نے مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ پارٹی ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے ایک ٹوئٹ میں ’انڈین ایکسپریس‘ کی خبر کو ٹیگ کرتے ہوئے اسے ’مودی کرپا‘ (مودی کا کرم) اور ’پبلک لوٹ‘ قرار دیا ہے۔ انھوں نے ساتھ ہی لکھا ہے کہ ’’سرکاری بینکوں میں جمع عوام کے پیسے سے 3.16 لاکھ کروڑ روپے کا قرض بٹّا کھاتہ میں ڈال دیا، جب کہ 14 فیصد ٹیکس کی وصولی ہو سکی اور مودی کرپا سے ڈیفالٹرس کو بچنے کا موقع حاصل ہوا۔‘‘
قابل غور بات یہ ہے کہ 2014 سے 2018 کے درمیان 21 بینکوں نے جتنے قرج کو بٹّا کھاتہ میں ڈالا ہے وہ 2014 سے قبل کے 10 سال میں بٹّا کھاتہ میں ڈالے گئے قرض کے 166 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ اس طرح مودی حکومت میں معاشی بدنظمی کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے۔ یہاں یہ بھی قابل غور ہے کہ مودی حکومت پبلک سیکٹر بینکوں میں لگاتار ایکوئٹی پونجی ڈال کر یا دیگر طریقوں سے ان کے اکاؤنٹ کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اس کے باوجود ان کے اکاؤنٹ میں پھنسے قرض کی مقدار بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔