’پبلک اکاؤنٹس کمیٹی‘ کے 100 سال مکمل، صد سالہ تقریبات کے انعقاد کا فیصلہ
صد سالہ تقریبات کے بارے میں اطلاع دیتے ہوئے کمیٹی کے چیئرمین ادھیر رنجن چودھری نے صحافیوں کو بتایا کہ اومیکرون کے خطرے کی وجہ سے کوئی بھی غیر ملکی وفد اس تقریب میں شرکت نہیں کر پا رہا ہے۔
نئی دہلی: ہندوستان کی پارلیمانی جمہوریت میں اہم کردار ادا کرنے والی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے 100 سال مکمل ہونے پر 4 دسمبر سے دو روزہ صد سالہ تقریب کا انعقاد کیا جائے گا۔ تقریب میں شرکت کے لیے دولت مشترکہ کے 52 ممالک کو دعوت نامے بھیجے گئے تھے، لیکن کووِڈ کی نئی قسم ’اومیکرون‘ کے خطرے کی وجہ سے کوئی بھی غیر ملکی وفد تقریب میں شرکت کے لیے ہندوستان نہیں آئے گا۔
پی اے سی کی صد سالہ تقریبات کے بارے میں اطلاع دیتے ہوئے کمیٹی کے چیئرمین ادھیر رنجن چودھری نے صحافیوں کو بتایا کہ اومیکرون کے خطرے کی وجہ سے کوئی بھی غیر ملکی وفد اس تقریب میں شرکت نہیں کر پا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کے لیے پاکستان کو بھی دعوت نامہ بھیجا گیا تھا لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔
چودھری نے کہا کہ دو روزہ پروگرام کا افتتاح ہفتہ کو صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کریں گے۔ اس دوران راجیہ سبھا کے چیئرمین اور نائب صدر وینکیا نائیڈو اور لوک سبھا اسپیکر اوم برلا بھی موجود رہیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اتوار کو ہونے والی اختتامی تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی موجود رہیں۔
چودھری نے کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی 1921 میں برطانوی دور حکومت میں قائم ہوئی تھی۔ ملک کے آزاد ہونے اور جمہوریہ بننے کے بعد اس میں بنیادی تبدیلیاں آنا شروع ہو گئیں۔ 1967 میں حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس کمیٹی کا چیئرمین اپوزیشن لیڈر ہوگا اور یہ روایت اس وقت سے چلی آ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوتاہیوں، غلطیوں،خامیوں اور بے ضابطگیوں کو پکڑنے اور مالی معاملات میں حکومت کے کام کاج کی نگرانی میں پی اے سی کا اہم کردار ہے۔ سال 1952 سے 2021 تک اس کمیٹی نے اپنی 1699 رپورٹ پیش کی ہے۔
پی ایم کیئرس فنڈ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مسٹر چودھری نے کہا کہ کنٹرول اینڈ آڈیٹر جنرل (سی اے جی) پی اے سی کے دماغ کی اختراع ہے اور کہا کہ یہ کمیٹی سی اے جی کی رپورٹ کی بنیاد پر کارروائی کرتی ہے لیکن پی ایم کیئرس فنڈ سی اے جی کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا ہے۔ اس لیے اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس پر وزیر اعظم کا دفتر ہی کچھ کہہ سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔