وقف سے متعلق پیش کردہ ترمیمات، وقف ایکٹ کو ختم کرنے کی کوشش، مولانا محمود مدنی کا سخت تشویش کا اظہار
جمعیۃ کے صدر مولانا محمود مدنی نے وقف ایکٹ میں مجوزہ ترمیمات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج پارلیمنٹ میں جو ترمیمات پیش کی گئیں، وہ وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لیے نقصان دہ ہیں
نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے وقف ایکٹ میں مجوزہ ترمیمات کے بارے میں سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج پارلیمنٹ میں جو ترمیمات پیش کی گئیں، وہ وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اس کے ذریعہ حکومتی اداروں کو غیر ضروری مداخلت کا موقع ملے گا، جس سے وقف کی اصلی حیثیت اور خدا کی ملکیت کا تصور پامال ہوگا۔
مولانا مدنی نے کہا کہ وقف ایکٹ کی دفعہ 40 کو ختم کرنا اور وقف ٹربیونل کے بجائے ضلع کلکٹر کو وقف جائیداد کے عنوانات اور قبضے سے متعلق مسائل اور تنازعات کو ریونیو قوانین کے مطابق حل کرنے کا اختیار دیا جانا درحقیقت وقف بورڈ کو کالعدم کرنے کے مترادف ہے ۔ انھوں نے کہا کہ باعث تعجب ہے کہ جب کسی زمین پر سرکار کا قبضہ ہو تو اس کی ملکیت کا فیصلہ بھی کلکٹر کے ذریعہ کیا جائے گا ، ایسی صورت میں منصف اور مدعی دونوں سرکار ہی ہوگی۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ فرقہ پرست عناصر نے وقف ایکٹ کو ختم کرنے کی جو مہم چلائی تھی ، موجودہ سرکار ان لوگوں کے ناپاک خیالات سے متاثر ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ اس طرح کا اقدام سپریم کورٹ کی طے کردہ ہدایات اور آئین ہند کی دفعہ26کی خلاف ورزی ہے۔ مولانا مدنی نے لیمٹیشن ایکٹ 1963 سے وقف جائیدادوں کو حاصل تحفظ کے خاتمے، وقف بائی یوزر اور وقف علی الاولاد کو ختم کرنے کی تجویز کو بھی بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔
وقف جائیدادوں کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے مولانا مدنی نے مزید کہا کہ وقف جائیدادیں خدا کی ملکیت ہیں، یہ کسی حکومت یا اقتدار اعلی ٰ کے تصرف اور قبضے میں نہیں لائی جا سکتیں، نیز ان کے مقاصد بھی طے ہیں، جن کی ہدایات اسلامی تعلیمات میں دی گئی ہیں، اس لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وقف جائیدادوں کا انتظام و اختیار وقف بورڈ کے پاس ہی رہے اور اس میں مسلم اسکالر کی نمائندگی بھی برقرار رہے تاکہ اوقاف کے تقدس اور مقصد کو برقرار رکھا جا سکے۔
مولانا مدنی نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ مجوزہ ترمیمات کو واپس لے اور تمام اسٹیک ہولڈرز، بشمول مذہبی رہنماؤں اور وقف انتظامیہ کے اداروں کے ساتھ تفصیلی مشاورت کرے۔ انھوں نے کہا کہ قانون میں ترمیم یا تبدیلی کوئی ممنوع چیز نہیں ہے، لیکن مجوزہ ترمیمات کے بعض پہلو وقف منشا کے خلاف ہیں، اس لیے وقف جائیدادوں کی خود مختاری کو محفوظ رکھا جائے اور کسی بھی تبدیلی کو مذہبی طبقات اور مسلم اداروں کی اتفاق رائے سے انجام دیا جائے ۔مولانا مدنی نے سیاسی پارٹیوں اور تمام متعلقہ شہریوں سے اپیل کی کہ وہ ان مجوزہ ترمیمات کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اور مذہبی حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کے لئے یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔