ہاتھرس معاملہ پر پرینکا گاندھی کا بیان- ’کیا حکومت نے حساسیت دکھائی، کیا اس کے نمائندے متاثرہ کے ساتھ کھڑے تھے؟‘

کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے ہاتھرس معاملہ پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا سوال کیا ہے کہ کیا وہ پہلے دن سے متاثرہ اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ کھڑی تھی؟

پرینکا گاندھی، تصویر ٹوئٹر
پرینکا گاندھی، تصویر ٹوئٹر
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: ہاتھرس معاملہ میں چار میں سے تین ملزمان کے بری ہو جانے کے بعد متاثرہ اہل خانہ نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خصوصی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ جو انصاف ہوا ہے وہ اعلیٰ ذاتوں کے لئے تو انصاف ہے لیکن ان کے لئے نہیں! دریں اثنا، کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے ہاتھرس معاملہ پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا سوال کیا ہے کہ کیا وہ پہلے دن سے متاثرہ اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ کھڑی تھی؟

کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے ٹوئٹ کیا ’’ہاتھرس کا متاثرہ کنبہ کہہ رہا ہے کہ انہیں انصاف نہیں ملا۔ 8 مارچ کو عالمی یوم خاتون پر بی جے پی حکومت خاتون کی بااختیاری پر کھوکھلی باتیں کرے گی۔ لیکن کیا ہاتھرس معاملہ پر حکومت نے حساسیت دکھائی؟ کیا حکومت کے نمائندے پہلے دن سے ہاتھ کی متاثرہ اور اس کے خاندان کے ساتھ کھڑے تھے؟‘‘


ہاتھرس معاملہ پر خصوصی ایس سی/ایس ٹی عدالت نے جمعرات (2 مارچ 2023) کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے چار ملزمان میں سے رامو، روی اور لو کش کو رہا کر دیا، جبکہ صرف ایک سندیپ کو قصوروار قرار دیا۔ تاہم سندیپ کو بھی عصمت دری کا نہیں بلکہ صرف غیر ارادی قتل کا قصوروار قرار دیا گیا۔

یاد رہے کہ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی اور پارٹی کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی 3 اکتوبر 2020 کو ہاتھرس پہنچے تھے اور متاثرہ اہل خانہ سے ملاقات کی تھی۔ راہل اور پرینکا نے تقریباً ایک گھنٹہ تک متاثرہ کے اہل خانہ سے ملاقات کی تھی اور پرینکا گاندھی نے متاثرہ کی غمزدہ ماں کو گلے لگا کر تسلی بھی دی تھی۔

متاثرہ کے اہل خانہ سے ملاقات کے بعد پرینکا گاندھی نے اپنے بیان میں کہا تھا ’’ہم ناانصافی کے خلاف لڑیں گے۔ اہل خانہ آخری بار اپنی بچی کا منہ بھی نہیں دیکھ پائے۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی۔ جب تک انصاف کی فراہمی نہیں ہو جاتی ہم لڑیں گے۔‘‘

اتر پردیش کے ہاتھرس میں 14 ستمبر 2020 کو ایک دلت لڑکی کی مبینہ طور پر عصمت دری کی گئی تھی اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ متاثرہ کی حالت بگڑنے کے بعد اسے دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں داخل کرایا گیا، جہاں 29 ستمبر کو علاج کے دوران اس کی موت ہو گئی۔ علاج کے دوران متاثرہ نے اپنے بیان میں چار نوجوانوں سندیپ، رامو، لو کش اور روی پر اجتماعی عصمت دری کا الزام لگایا تھا۔ اس کی بنیاد پر پولیس نے چاروں نوجوانوں کو گرفتار کر لیا تھا۔


ہاتھرس معاملے میں یوپی پولیس پر لاپرواہی کے الزامات بھی عائد ہوئے تھے۔ پولیس پر الزام تھا کہ لڑکی کی آخری رسومات اہل خانہ کو بتائے بغیر ادا کی گئیں۔ صرف اتنا ہی نہیں یوپی پولیس نے پوسٹ مارٹم رپورٹ کی بنیاد پر دعویٰ کیا تھا کہ متاثرہ کے ساتھ اجتماعی عصمت دری نہیں ہوئی تھی۔ یوپی پولیس کے اس بیان کے بعد عدالت نے یوپی پولیس کو پھٹکار لگائی تھی۔

اس معاملے پر ملک بھر میں ہنگامہ ہوا تھا، جس کے بعد ریاست کی یوگی حکومت نے سی بی آئی تحقیقات کی سفارش کی۔ سی بی آئی نے تحقیقات کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد متاثرہ کے خاندان سے کئی بار پوچھ گچھ کی۔ جیل میں قید چاروں ملزمان سے پوچھ گچھ کی گئی اور ان کا پولی گرافی ٹیسٹ بھی کرایا گیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔