سبزیوں کی قیمتیں آسمان پر، پھر بھی کسانوں کو نہیں مل رہی مناسب رقم، اپنے ہاتھوں فصل برباد کرنے پر مجبور... دیوندر شرما

سبزیوں کی کاشت کرنے والے ایک کسان نے کہا کہ ’’میں اسے پیدا کرتا ہوں اور اب اسے تباہ کر رہا ہوں، یہ بہت مشکل ہے لیکن میں اور کر ہی کیا سکتا ہوں؟‘‘

<div class="paragraphs"><p>سبزی خریدتے لوگ / یو این آئی</p></div>

سبزی خریدتے لوگ / یو این آئی

user

قومی آواز بیورو

بنگال، بہار، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، گجرات اور مہاراشٹر میں آلو کے ساتھ ساتھ پھول گوبھی، بند گوبھی اور ٹماٹر کی قیمتیں اِس وقت کافی گر گئی ہیں، حالانکہ کئی سبزیاں ایسی بھی ہیں جن کی قیمتیں آسمان پر ہیں۔ اس کے باوجود حال یہ ہے کہ کسانوں کو ان کی لاگت بھی نہیں مل پا رہی ہے۔ اس وجہ سے پنجاب کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش کے کسان بھی اپنی فصل برباد کر رہے ہیں۔ سبزیوں کی کاشت کرنے والے ایک کسان نے کہا کہ ’’میں اسے پیدا کرتا ہوں اور اب اسے تباہ کر رہا ہوں، یہ بہت مشکل ہے لیکن میں اور کر ہی کیا سکتا ہوں؟‘‘

گزشتہ ماہ تلنگانہ میں ظہیر آباد ضلع کے کچھ حصوں کی یاترا کے دوران میں نے بہت اچھی فصل کے بعد بھی ٹماٹر کسانوں کو روتے ہوئے دیکھا۔ یہ پوچھنے پر کہ وہ ٹماٹر کھیتوں سے کیوں نہیں نکال رہے، ایک افسردہ ٹماٹر کسان نے کہا کہ جب بازار میں ہی اس کی قیمت تقریباً 2 روپے کلو ہے تو ٹماٹر توڑنے اور اسے بازار تک ڈھو کر لے جانے کا اضافی خرچ وہ نہیں اٹھانا چاہتے۔ انھوں نے غصے میں یہاں تک کہہ دیا کہ ’’جتنا من ہو، آپ توڑ لو۔‘‘


چھتیس گڑھ سے گزشتہ عشرہ میں ایک خبر آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ مہاسمند سے ایک کسان 1475 کلوگرام بینگن لے کر رائے پور منڈی پہنچا اور اس سے اسے جتنی آمدنی ہوئی، ٹرانسپورٹیشن اور دیگر اخراجات کے لیے اسے اس سے 121 روپے زیادہ خرچ کرنے پڑے۔ ایک مہینہ قبل میڈیا میں لہسن کسانوں کی بھی اسی طرح اپنی فصل تباہ کر دینے کی خبریں سامنے آئی تھیں۔ یہ پیاز کی کاشت کرنے والوں کی طرح ہی کہانی تھی۔ اگر آپ گوگل پر سرچ کریں گے تو پیداوار کو لے کر کسانوں کی فکر پر ہزاروں میڈیا و اکیڈمک رپورٹ مل جائیں گی۔ اسٹاک مارکیٹ میں اٹھا پٹخ پر تو حکومت اور میڈیا الگ ڈھنگ سے رد عمل ظاہر کرتی ہیں اور وزراء و افسران مستقل طور پر اس بارے میں میڈیا میں بریفنگ کرتے ہیں۔ لیکن کھیتی کسانی کی وجہ سے زندگی پر پڑنے والے اثر پر کوئی پرائم ٹائم اور پینل ڈسکشن نہیں ہوتا۔ ہاں، جب قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی بڑھنے لگتی ہے تو پینل ڈسکشن ہونے لگتے ہیں۔

مرکزی وزیر مالیات نرملا سیتارمن ویسی بازار انٹروینشن منصوبہ (ایم آئی ایس) کو مضبوط کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں کہ بہت اچھی فصل ہونے پر یا لاگت کے موازنہ میں کم فصل ہونے پر مارکیٹ پرائس کم ہونے پر مداخلت کی جا سکے۔ 23-2022 کے مرکزی بجٹ میں پی ایس ایس (پرائس سپورٹ اسکیم) اور ایم آئی ایس میں عموماً کافی کمی کر دی گئی۔ گزشتہ سال اس کے لیے 1500 کروڑ کا الاٹمنٹ کیا گیا تھا جبکہ ایم آئی ایس کے لیے بجٹ التزام اب محض ایک لاکھ روپے ہو گیا ہے۔ ہماچل پردیش اور کشمیر میں سیب باغبانوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر ایم آئی ایس خرچ نہیں بڑھائے گئے تو وہ سڑکوں پر اتریں گے۔ دراصل یہ خرچ نہیں بڑھا، تو کم معیار والے ایسے سیبوں کی سالانہ خرید متاثر ہوگی جن کی سرکاری ایجنسیاں خرید کرتی ہیں۔


ٹماٹر، پیاز اور آلو کی قیمتیں جس طرح عام طور پر غیر مستحکم رہتی ہیں، ان پر کنٹرول کرنے کے لیے 500 کروڑ روپے کے خرچ کا التزام کرتے ہوئے 19-2018 کے بجٹ میں آپریشن گرینس کی شروعات کی گئی۔ سنٹرل فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری منسٹری نے خود کفالت مہم کے تحت سبھی پھلوں اور سبزیوں کو اس منصوبہ کے دائرے میں رکھا۔ لیکن لگتا ہے کہ 2023 میں اسے فراموش کر دیا گیا ہے۔

کچھ مواقع کو چھوڑ کر آپریشن فلڈ نے خراب ہو جانے والے پروڈکٹ دودھ کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کو کنٹرول کیے رکھا۔ اسی انتظام کو تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ پھلوں اور سبزیوں میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کے لیے نافذ کیا جا سکتا تھا۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کولڈ اسٹوریج نظام اور ایسے ویلیو چین کی از سر نو تعمیر کی کوشش کی ضرورت ہے جو پروسیسنگ اور مقامی رسائی بنا پائیں۔ اس سے بھی زیادہ ضروری قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کو دور کرتے ہوئے کسانوں کے لئے گارنٹی والی قیمتوں کو یقینی کرنا ہونا چاہیے۔ اس کے لیے کیرالہ میں کیے گئے ان انتظامات سے سبق لینے کی ضرورت ہے جن سے سبزی اُگانے والوں کے لیے ایک مقرر قیمت یقینی بنائی گئی ہیں۔


سچ تو یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دور میں صارفین تو اونچی قیمتیں دیتے ہیں، لیکن بڑے اور منظم کاروبار کے مول تول کی وجہ سے کسانوں کی محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔

(مضمون نگار دیوندر شرما معروف فوڈ پالیسی تجزیہ نگار اور زرعی شعبہ سے متعلق ایشوز کے ماہر ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔