اپنے پن کا جذبہ دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت: صدر
نئی دہلی : یو م آزادی کی 71ویں سالگرہ سے قبل صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے قوم سے خطاب کیا۔انہوں نے ہم وطنوں کو آزادی کے 70سال مکمل ہونے پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ملک کل 71واں یو م آزادی منانے جارہا ہے۔ا س موقع پر میں آپ سب کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ 15 اگست 1947کو ہمارا دیش ایک آزاد ملک بنا۔ خود مختاری پانے کے ساتھ ساتھ اسی دن ملک کی قسمت طے کرنے کی ذمہ داری بھی برطانوی حکومت کے ہاتھوں سے ہم ہندوستانی عوام کے پاس آگئی۔کچھ لوگوں نے اس عمل کو اقتدار کی منتقلی بھی کہا۔لیکن حقیقت میں یہ صرف اقتدار کی منتقلی نہیں تھی ۔ یہ ایک بہت بڑی اور وسیع تبدیلی کی گھڑی تھی۔ یہ ہمارے پورے ملک کے خوابوں کا حقیقت میں تبدیل ہونے کا وقت تھا ۔۔ایسے خواب جو ہمارے آباو اجداد نے اور مجاہدین آزادی نے دیکھے تھے۔اب ہم ایک نئے ملک کا تصور کرنے اور اس کی تعمیر کرنے کے لئے آزاد تھے۔ہمارے لئے یہ سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ آزاد ہندوستان کے ان کے خواب کی جڑیں ہمارے عام گاؤں غریب اور محروم طبقات اور ہمارے ملک کی ہمہ جہت ترقی میں پیوست تھیں۔
آزادی کے لئے ہم ان تمام ان گنت مجاہدین آزادی کے مقروض ہیں جنہوں نے اس کے لئے عظیم قربانیاں دیں۔کٹور کی رانی چینما جھانسی کی رانی لکشمی بائی ہندوستان چھوڑو تحریک کی ہیروئین اور شہید ماتانگنی حاجرہ جیسی بہادر خواتین کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ماتانگنی حاجرہ تقریباََ 70 سال کی بزرگ خاتون تھیں۔ بنگال کے تملک میں ایک پرامن احتجاجی مظاہرہ کی قیادت کے دوران برطانوی پولیس نے انہیں گولی ماردی تھی۔ ان کے لبوں سے نکلنے والے آخری الفاظ تھےوندے ماترم اور ہندوستان کی آزادی ا ن کی آخری دلی خواہش تھی۔ملک کے لئے جان کی بازی لگانے والے سردار بھگت سنگھ'چندر شیکھر آزاد'رام پرساد بسمل'اشفاق اللہ خان اور برسا منڈا جیسے ہزاروں مجاہدین آزادی کو ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔
آزادی کی لڑائی کے آغاز سے ہی ہم خوش قسمت رہے کہ ہمیں ملک کی رہنمائی کرنے والی متعدد عظیم شخصیات اور انقلابی رہنماؤں کا آشیرواد حاصل رہا ہے۔ان کا مقصد صرف سیاسی آزادی حاصل کرنا نہیں تھا۔ مہاتما گاندھی نے سماج اور قوم کے کردار کی تعمیر پر زور دیا ۔ گاندھی جی نے جن اصولوں کو اپنانے کی بات کہی تھی 'ہمارے لئے ان کی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔آزادی اور اصلاح کے لئے ملک گیر جدوجہد میں صرف گاندھی جی اکیلے نہیں تھے ۔ نیتاجی سبھا ش چندر بوس نے جب تم مجھے خون دو میں تمہیں آزادی دوں گا کی اپیل کی تو ہزاروں لاکھوں ہندوستانیوں نے ان کی قیادت میں آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ملک کے پہلے وزیر اعظم آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو نے ہمیں سکھایاکہ ہندوستان کی صدیوں پرانی وراثت اور روایات کا جن پر ہمیں آج بھی فخر ہے ٹکنالوجی کے ساتھ تال میل ممکن ہے اور یہ روایات جدید سماج کی تعمیر کی کوشش میں معاون ہوسکتی ہیں۔
سردار پٹیل نے ہمیں قومی اتحاد اور سا لمیت کی اہمیت کے تئیں بیدار کیا ۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی سمجھایا کہ نظم و ضبط -کا پابند قومی کردار کیا ہوتا ہے۔بابا صاحب بھیم راو امبیڈکر نے آئین کے دائرہ میں رہ کر کام کرنے اور قانون کی حکمرانی کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔اسی کے ساتھ انہوں نے تعلیم کی بنیادی ضرورت پر بھی زور دیا۔میں نے ملک کے صرف چند عظیم رہنماؤں کی ہی مثالیں دی ہیں۔میں آپ کو اور بھی بہت ساری مثالیں پیش کر سکتا ہوں۔ ہمیں جس نسل نے آزادی دلائی 'اس کا دائرہ بہت وسیع تھا ۔ا س میں بہت گوناگونی بھی تھی۔ اس میں خواتین بھی تھیں اور مرد بھی جو ملک کے مختلف حصوں اورمختلف سیاسی اور سماجی نظریات کی نمائندگی کرتے تھے۔آج ملک کے لئے اپنی زندگی قربان کردینے والے ایسے ہی بہادر مجاہدین آزادی سے حوصلہ پاکر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ آج ملک کے لئے کچھ کر گذرنے کے اسی جذبے کے ساتھ قوم کی تعمیر میں مسلسل مصروف رہنے کی ضرورت ہےاخلاقیات پر مبنی پالیسیوں اورمنصوبوں کو نافذ کرنے پر ان کا زور اتحا اور ڈسپلن میں ان کا محکم یقین وراثت اور سائنس کے تال میل میں ان کا اعتماد قانون کی حکمرانی اور تعلیم کا فروغ۔ ان تمام باتوں میں شہریوں اورحکومت کے مابین شراکت کا نظریہ کارفرما تھا۔
یہی شراکت ہماری قوم کی تعمیر کی بنیاد رہی ہے۔ شہریوں اور سرکار کے مابین شراکت فرد اور سماج کے درمیان شراکت خاندان اور ایک بڑے سماج کے درمیان شراکت۔
میرے عزیز ہم وطنو!
اپنے بچپن میں گاؤں کی دیکھی ہوئی ایک روایت مجھے آج بھی یاد ہے۔ جب کسی خاندان میں بیٹی کی شادی ہوتی تھی توگاؤں کا ہر خاندان اپنی اپنی ذمہ داری تقسیم کرلیتا تھا اور تعاون کرتا تھا۔ذات یا فرقہ کوئی بھی ہو 'وہ بیٹی اس وقت صرف ایک خاندان کی ہی بیٹی نہیں بلکہ پورے گاؤں کی بیٹی ہوتی تھی۔شادی میں آنے والے مہمانوں کی ضیافت 'شادی کے الگ الگ کاموں کی ذمہ داری یہ سب پڑوسی اور گاؤں کے تمام لوگ آپس میں طے کرلیتے تھے۔ ہر خاندان کسی نہ کسی طرح سے مدد ضرور کرتا تھا۔ کوئی خاندان شادی کے لئے اناج بھیجتا تھا کوئی سبزیاں بھیجتا تھا تو کوئی تیسرا خاندان ضرورت کی دیگر چیزوں کے ساتھ حاضر ہوجاتا تھا۔اس وقت پورے گاؤں میں اپنے پن کا جذبہ ہوتا تھا 'شراکت کا جذبہ ہوتا تھا 'ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ ہوتا تھا۔ اگر آپ ضرورت کے وقت اپنے پڑوسیوں کی مدد کریں گے تو فطری ہے کہ وہ بھی ضرورت کے وقت آپ کی مدد کرنے کے لئے آگے آئیں گے۔لیکن آج بڑے شہروں میں صورت حال یکسر مختلف ہے۔ بہت سے لوگوں کو برسوں تک یہ بھی نہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پڑوس میں کون رہتا ہے۔ اس لئے گاوں ہو یا شہر آج سماج میں اسی اپنے پن اور شراکت کے جذبہ کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ہمیں ایک دوسرے کے جذبات کوسمجھنے اور ان کا احترام کرنے میں نیز ایک متوازن حساس اور خوشحال سماج کی تعمیر کرنے میں مدد ملے گی۔
صدر جمہوریہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج بھی ایک دوسر ے کے خیالات کا احترا م کرنے کا جذبہ سماج کی خدمت کا جذبہ اور خود آگے بڑھ کر دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ ہندوستان میں زندہ ہے۔ ایسے بہت سے افراد اور تنظیمیں موجود ہیں جوغریبوں اور محرو م افراد کی فلا ح وبہبودکے لئے بڑی خاموشی اور پوری لگن کے ساتھ کام کررہی ہیں۔ان میں سے کوئی بے سہارا بچوں کے لئے اسکول چلا رہا ہے کوئی لاچار جانوروں اور پرندوں کی خدمت میں مصروف ہے کوئی دور افتادہ علاقوں میں قبائلیوں کو پینے کا پانی فراہم کررہا ہے کوئی ندیوں اور عوامی مقامات کی صفائی میں لگا ہوا ہے۔اپنی دھن میں مگن یہ سبھی قوم کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ ہمیں ان سب سے حوصلہ لینا چاہئے۔قو م کی تعمیر کے لئے ایسے بے لوث افراد کے ساتھ سب کو شامل ہونا چاہئے ۔ ساتھ ہی حکومت کے ذریعہ کی جانے والی کوششوں کے فوائد ہر طبقے تک پہنچانے کے لئے متحد ہوکر کام کرنا چاہئے۔ اس کے لئے بھی شہریوں اور حکومت کے مابین شراکت ضروری ہے۔
*حکومت نے سوچھ بھارت مہم شروع کی ہے۔ لیکن ہندوستان کو صاف ستھرا بنانا ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔
*حکومت ٹوائلٹ (TOILET)بنا رہی ہے اور ٹوائلٹ بنانے میں مدد کررہی ہے لیکن ان ٹوائلٹ کا استعمال کرنا اور ملک کو کھلےمیں رفع حاجت سے پاک کرانا ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔
*حکومت ملک میں مواصلاتی انفرااسٹرکچر کو مضبوط بنارہی ہے لیکن انٹرنیٹ کا صحیح مقصد کے لئے استعمال کرنا ' علم کی خلیج کودور کرنا تعلیم اور اطلاعات تک رسائی میں اضافہ کرنا ۔ ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔
*حکومت بیٹی بچاو بیٹی پڑھاؤ کے نظریہ کو فروغ دے رہی ہے۔ لیکن اس امر کو یقینی بنانا کہ ہماری بیٹیوں میں کوئی تفریق نہ ہو اور و ہ بہترین تعلیم حاصل کریں۔ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔
*حکومت قانون بناسکتی ہے اور قانون کو نافذ کرنے کے عمل کو مضبوط کرسکتی ہے لیکن روز مرہ کی زندگی میں قانون پر عمل کرنا اور قانون پر عمل کرنے والے سماج کی تعمیر کرنا ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔
*حکومت شفافیت پر زور دے رہی ہے سرکاری تقرریوں اور سرکاری خرید اری میں بدعنوانی کو ختم کررہی ہے۔لیکن روز مرہکی زندگی میں اپنے ضمیر کو جواب دہ بنانا ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔
*حکومت نے ٹیکس نظام کوآسان بنانے کے لئے جی ایس ٹی نافذ کیا ہے اور لین دین کوآسان بنایا ہے ۔ لیکن اسے اپنے ہر لین دین اور بزنس کلچر کا حصہ بنانا ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔مجھے خوشی ہے کہ ملک کے عوام نے جی ایس ٹی کو خوش دلی سے قبول کیا ہے۔ حکومت کو جو بھی آمدنی ہوتی ہے اس کا استعمال قوم کی تعمیر کے کاموں میں ہی ہوتا ہے۔ اس سے کسی غریب اور پسماندہ کومدد ملتی ہے' گاؤں اورشہروں میں بنیادی سہولیات کی تعمیر ہوتی ہے اور ہمارے ملک کی سرحدوں کی سیکورٹی مضبوط ہوتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 14 Aug 2017, 10:48 PM