کورونا کے دور میں لیوپس میں مبتلا حاملہ خواتین خاص طور پر اپنا خیال رکھیں
ڈاکٹر کمار نے کہا کہ کورونا کے دور میں اس بیماری میں مبتلا لوگوں کو باہر نکلنے سے تو بچنا ہی چاہیے بلکہ انہیں تمام دوائیں بھی باقاعدہ طور پر لینی چاہئیں اور ورزش کرتے رہنا چاہیے۔
نئی دہلی: ملک میں کورونا وبا کے پیش نظر ’لیوپس‘ بیماری سے متاثر خواتین خاص طور پر حاملہ خواتین کو خا ص طور پر اپنا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بیماری ’رومیٹائڈ ارتھرائٹس‘ سے زیادہ خطرناک اور تکلیف دہ ہے۔ اس بیماری سے کڈنی اور دل بھی متاثر ہوتا ہے اور مریض ذیابیطس اور ہائپر ٹینشن کا شکار ہوجاتا ہے۔
آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں ریموٹولوجی محکمہ کی سربراہ ڈاکٹر اوما کمار نے یو این آئی سے کہا کہ ’لیوپس‘ ایک طرح کا رتھرائٹس ہے لیکن یہ رومیٹائڈ ارتھرائٹس سے زیادہ تکلیف دہ اور خطرناک ہے کیونکہ اس میں جوڑوں کے درد کے علاہ بخار بھی ہوتا ہے، منہ میں چھالے بھی پڑتے ہیں اور سنگین طور پر بیمار لوگوں کی کڈنی بھی خراب ہوجاتی ہے اور دل کی بیماری بھی ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کورونا کے اس دور میں خواتین کو خاص طورپر حاملہ خواتین کو دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر کمار نے کہا کہ ملک میں لیوپس بیماری خواتین کو مردوں کے مقابلہ میں دس گنا زیادہ ہوتی ہے یعنی اگر ایک مرد اس میں مبتلا ہے تو دس خواتین اس میں مبتلا ہوں گی۔ ملک میں تقریباً ایک کروڑ خواتین اس بیماری میں مبتلا ہے۔
آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں ریموٹولوجی محکمہ کی سربراہ ڈاکٹر اوما کمارنے کہا کہ یہ کوئی جینیاتی یا چھوت چھات والی بیماری نہیں ہے لیکن فضائی آلودگی اور تمباکو نوشی اور الٹرا وائلیٹ شعاعوں اور دواوں کی وجہ سے یہ بیماری پیدا ہوسکتی ہے۔ ویسے اس بیماری کے یقینی اور ٹھوس اسباب کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خون کی جانچ سے اس بیماری کا پتہ چلتا ہے اس لئے حاملہ خواتین کو زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ کورونا کے دور میں اس بیماری میں مبتلا لوگوں کو باہر نکلنے سے تو بچنا ہی چاہیے بلکہ انہیں تمام دوائیں بھی باقاعدہ طور پر لینی چاہئیں اور ورزش کرتے رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا علاج طویل چلتا ہے اور مہنگا بھی ہے کیونکہ طویل عرصہ تک مریض کو دوائیں اور انجیکشن لینے پڑتے ہیں جو کافی خرچیلا ہے۔ انہو ں نے یہ بھی بتایا کہ یہ بیماری انشور نس میں کور نہیں ہے اور پردھان منتری آیوشمان یوجنا میں بھی شامل نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 10 May 2020, 5:40 PM