پرنب مکھرجی: وکالت، صحافت اور سیاست سے صدارت تک کا سفر
آنجہانی پرنب مکھرجی کا پارلیمانی کیریئر تقریباً پانچ دہائیوں پر محیط ہے، جو 1969 میں کانگریس پارٹی کے راجیہ سبھا رکن کے طور پر شروع ہوا اور وہ 1975، 1981، 1993 اور 1999 میں پھر سے منتخب ہوئے۔
نئی دہلی: سابق صدرجمہوریہ ہند پرنب مکھرجی جو آج 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے، مغربی بنگال کے ضلع ویربھوم میں کرناہر شہر کے قریب واقع مراتی گاﺅں کے ایک برہمن خاندان میں کامدا کنکر مکھرجی اورراج لکشمی مکھرجی کے یہاں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ماجد 1920 میں کانگریس پارٹی میں سرگرم ہونے کے ساتھ مغربی بنگال اسمبلی میں 1952 سے 1964 تک رکن اور ویربھوم (مغربی بنگال) ضلع کانگریس کمیٹی کے صدر رہ چکے تھے۔ ان کے والد ایک معزز مجاہد آزادی تھے، جنہوں نے برطانوی اقتدار کی مخالفت کے نتیجے میں دس سال سے زیادہ جیل کی سزا بھی کاٹی تھی۔
پرنب مکھرجی نے ویربھوم کے ودیاساگر کالج میں تعلیم حاصل کی جو اس زمانے میں کلکتہ یونیورسٹی سے منسلک تھا۔ 13جولائی 1957 میں سروا مکھرجی سے ان کی شادی ہوئی۔ ان کی ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ پڑھنا لکھنا، باغبانی کرنا اور موسیقی ان کے شوق تھے۔ مکھرجی کہتے تھے کہ”بنگال کے ایک چھوٹے سے گاﺅں میں دیپک کی روشنی سے دہلی کی جگمگاتی روشنی تک کے اس دورے کے دوران میں نے بڑے اور کچھ حد تک ناقابل اعتماد تبدیلیاں دیکھی ہیں“۔
ملک کے 13 ویں صدر کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد اپنی تقریر میں پرنب مکھرجی نے کہا تھا کہ اس وقت میں بچہ تھا، جب بنگال میں قحط نے لاکھوں لوگوں کو مار ڈالا تھا۔ وہ درد اور دکھ میں بھولا نہیں ہوں۔ اسکول جانے کے لیے اکثر دریا تیر کر پار کرنے والے پرنب نے زمین سے اٹھ کر کئی مقام حاصل کئے اوربالآخر ملک کے سپریم شہری بن گئے۔ اقتدار کے ایوانوں میں انہیں نقص گیر کہا جاتا تھا۔ کچھ وقت کے لیے پرنب دا نے وکالت بھی کی اور اس کے ساتھ ہی صحافت اور تعلیم کے علاقے میں بھی کچھ وقت گزرا۔ اس کے بعد ان کا سیاسی سفر شروع ہوا۔
سیاست میں پرنب مکھرجی کا پہلا عملی قدم 1969 میں اس وقت پڑا جب انہیں راجیہ سبھا کے لیے منتخب کیا گیا۔ سیاسی زندگی میں تقریباً 35 سال بعد انہوں نے پہلی بار لوک سبھا کا رخ کیا اور 2004 میں مغربی بنگال کے جنگی پور پارلیمانی حلقہ سے منتخب ہوئے۔ پرنب دا کئی مرتبہ وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئے۔ اس اہم عہدے پر نہ ہوتے ہوئے بھی بحران کے وقت سب لوگ ان کی طرف ہی دیکھتے تھے۔ 1980 کی دہائی میں وزیر اعظم کے عہدے کی حسرت نےانہیں کانگریس سے الگ کر دیا تھا ۔ انہوں نے اپنی ایک نئی پارٹی بنائی لیکن جلد ہی وہ دوبارہ کانگریس کا حصہ بنے اور نئی سیاسی بلندیوں کا سفر کیا۔
پی وی نرسمہا راؤ نے 1991 میں انہیں وزیر خارجہ بنانے کے ساتھ ہی منصوبہ بندی کمیشن کا نائب صدر کا عہدہ دیا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت میں وہ وزیر دفاع اور وزیر خارجہ وزیر خزانہ کے عہدوں پر رہے۔ معیشت ، داخلی اور خارجی امور پر گہری نظر رکھنے والے پرنب مکھرجی سیاست کی ہر کروٹ کو بخوبی سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ان کی پارٹی اور موجودہ یو پی اے حکومت پر مصیبت آئی تو وہ سب سے آگے نظر آئے۔ کئی بار تو ایسا لگا کہ حکومت کی ہر مرض کی دوا پرنب دا ہی کے پاس ہے۔
گزشتہ 26 جون کو وزیر خزانہ کے عہدے سے پرنب کے استعفی دینے کے فورا بعد وزیر اعظم منموہن سنگھ نے انہیں خط لکھ کر حکومت میں ان کی خدمات کے لیے اظہار تشکر کیا اور کہا کہ ان کی کمی حکومت میں ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔ حکومت کے وزراء نے بھی ان کی کمی محسوس کی بات کہی۔ سیاست کے ایوانوں میں اپنے فن کا لوہا منوانے کے بعد پرنب مکھر جی ملک کے سب سے اعلیٰ آئینی عہدے پر فائز کئے گئے۔
یہ بھی پڑھیں : پرنب مکھرجی کے اعزاز میں سات روزہ قومی سوگ کا اعلان
آنجہانی پرنب مکھرجی کا پارلیمانی کیریئر تقریباً پانچ دہائیوں پر محیط ہے، جو 1969 میں کانگریس پارٹی کے راجیہ سبھا رکن کے طور پر شروع ہوا اور وہ 1975، 1981، 1993 اور 1999 میں پھر سے منتخب ہوئے۔ 1973 میں وہ صنعتی ترقی محکمہ کے مرکزی نائب وزیر کے طور پر کابینہ میں شامل ہوئے۔ وہ 1982 سے 1984 تک کئی کابینہ عہدوں کے لیے منتخب کیے جاتے رہے اور اور 1984 میں ہندستان کے وزیر خزانہ بنے۔ 1984 میں انہوں نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے منسلک گروپ 24 کے اجلاس کی صدارت کی۔
مئی اور نومبر 1995 کے درمیان میں انہوں نے سارک وزیر کونسل کانفرنس کی صدارت کی۔24 اکتوبر 2006 کو انہیں بھارت کا وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔ ڈاکٹرمنموہن سنگھ کی دوسری حکومت میں وہ وزیر خزانہ بنے، جس عہدہ پر وہ پہلے 1980 کی دہائی میں کام کر چکے تھے۔ 6 جولائی، 2009 کو انہوں نے حکومت کا سالانہ بجٹ پیش کیا۔ اس میں انہوں نے فرنج بینیفٹ ٹیکس اور کموڈٹیز ٹرانسکشن کر کو ہٹانے سمیت کئی طرح کے ٹیکس اصلاحات کا اعلان کیا۔ 1980–1985 کے دوران میں وزیر اعظم کی غیر موجودگی میں انہوں نے مرکزی کابینہ کی میٹنگوں کی صدارت کی۔
نیو یارک سے شائع میگزین، یورومنی کے ایک سروے کے مطابق، انہیں سال 1984 کے لئے دنیا کے بہترین پانچ وزراء خزانہ میں سے ایک قرار دیا گیا۔ انہیں 1997 میں سب سے بہترین ممبر پارلیمنٹ کا ایوارڈ ملا۔2008 میں انہیں عوامی معاملات میں ان کی خدمات کے لیے پدم بھوشن سے نوازا گیاتھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔