پرکاش راج نے بھی ہندو شدت پسندی کے خلاف آواز بلندکی

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

کمال حسن کے بعد نیشنل ایوارڈ یافتہ اداکار پرکاش راج نے بھی ہندو دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ انھوں نے سوال کیا ہے کہ اگر فرقہ، ثقافت اور اخلاقیات کے نام پر کسی کو خوفزدہ کرنا دہشت پھیلانا نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟ دراصل پرکاش راج نے آج ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں انھوں نے یہ سوال کیا ہے۔ اس ٹوئٹ کے جواب میں کئی لوگوں نے ان کے خلاف محاذ کھول دیا ہے اور انھیں ہندو مخالف بتایا جانے لگا ہے۔ کچھ لوگوں نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ وہ بھی کمال حسن کی طرح سیاست میں اترنا چاہتے ہیں تو اس طرح کی ٹوئٹ انھیں فائدہ پہنچا سکتی ہے۔

پرکاش راج نے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ’’اگر میرے ملک کی سڑکوں پر نوجوان جوڑے کے ساتھ اخلاقیات کے نام پر بدسلوکی کرنا کیا دہشت پھیلانا نہیں ہے،گئو کشی کے معمولی شبہ پر قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے لوگوں کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالنا کیا دہشت پھیلانا نہیں ہے، کسی کو ٹرولنگ کرنا، گالیاں دینا اور ذرا سی نااتفاقی پر خاموش ہو جانے کی دھمکی دینا کیادہشت پھیلانا نہیں ہے، تو پھر دہشت پھیلانا کیا ہے؟‘‘

پرکاش راج کے اس ٹوئٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ پورے ملک میں ہندوتوا کے نام پر جس طرح لوگوں کو پریشان کیا جا رہا ہے اور ہندوستانی ثقافت کو بچانے کی نام نہاد کوشش، گئو کشی پر پابندی اور موب لنچنگ جیسے ایشوز کا بہانہ بنا کر جس طرح ملک کا ماحول خراب کیا جا رہا ہے، اس سے وہ بہت مایوس ہیں۔ ان کا یہ ٹوئٹ بالواسطہ طور پر بی جے پی اور ہندوتوادی تنظیموں پر سخت تنقید ہے۔

واضح رہے کہ کمال حسن نے بھی گزشتہ دنوں ہندو دہشت گردی پر ایک رسالہ میں مضمون لکھا تھا جس پر کافی تنازعہ بھی پیدا ہوا۔ بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ انھوں نے یہ مضمون ایسے وقت میں لکھا ہے جب کیرالہ میں مسلم شدت پسند تنظیم راڈار پر ہیں۔ شعلہ بیان لیڈر ونے کٹیار نے بھی کمال حسن کے خلاف آواز بلند کی تھی اور کہا تھا کہ انھوں نے ہندو سماج کی بے عزتی کی ہے اس لیے انھیں معافی مانگنی چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔