زہر افشانی کرنے والی پرگیہ ٹھاکر کو دی جا رہی ’بولنے کی ٹریننگ‘

سادھوی پرگیہ کو بھوپال سے امیدوار بنا کر بی جے پی ہندوتوا کے نام پر اپنی کشتی پار لگانا چاہتی ہے، لیکن وہ بھول رہی ہے کہ اسی کی حکومت نے آر ایس ایس کارکن کے قتل کے الزام میں اسے گرفتار کیا تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

مالیگاؤں بم دھماکوں کی ملزم سادھوی پرگیہ کو بھوپال سے امیدوار بنانے کا مقصد صاف ہے کہ بی جے پی کو پچھلے پانچ سال کے کام پر بھروسہ نہیں رہا اور اس لیے اب وہ ہندوتوادی نیشنلزم کے ذریعہ کشتی پار لگانا چاہتی ہے۔ یہ بھی صاف ہے کہ بی جے پی نے پرگیہ کو امیدوار بنا کر صرف بھوپال کا داؤ نہیں کھیلا ہے بلکہ وہ ملک بھر میں یہ پیغام دینا چاہتی ہے۔

ویسے مسلمانوں کے ووٹ تقسیم کر بھوپال اسمبلی سیٹ جیتنے کا بی جے پی نے نومبر میں خواب دیکھا تھا لیکن وہ کامیاب نہیں ہو پایا۔ آر ایس ایس کی ہدایت پر بی جے پی نے فاطمہ رسول صدیقی پر یہاں داؤ کھیلا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ تین طلاق کے ایشو کی وجہ سے مسلم ووٹوں کی تقسیم ہوگی اور اسے بھوپال سیٹ پر کامیابی مل جائے گی۔ لیکن یہاں کانگریس امیدوار عارف عقیل آرام سے جیت گئے اور 35 سال کی فاطمہ کوئی اثر بھی نہیں چھوڑ پائیں۔


بی جے پی کے کئی حامی مانتے ہیں کہ پرگیہ کو امیدوار بنانا پارٹی کا ماسٹر اسٹروک ہے۔ ایڈورٹائزنگ ایجنسی چلانے والے راجیش جین ایسا ماننے والوں میں ایک ہیں اور انھیں بھروسہ ہے کہ پرگیہ کانگریس امیدوار اور سابق وزیر اعلیٰ دگ وجے سنگھ کو آرام سے شکست دے دیں گی۔

دوسری جانب پارٹی کے لیے خودسپرد رہے کئی کارکنان اس بات سے حیران ہیں کہ پارٹی نے ایودھیا مندر تعمیر اور کشمیر میں دفعہ 370 ہٹانے جیسے ایشوز سے منھ موڑ لیا ہے۔ دگ وجے سنگھ کی امیدواری کی مخالفت کرتے آ رہے شرد شیکھر کا کہنا ہے کہ پرگیہ کے میدان میں آنے سے کافی سارے لوگوں کو ’نوٹا‘ یعنی ’ان میں سے کوئی نہیں‘ بٹن کو آزمانے کا متبادل مل گیا ہے۔


ویسے مالیگاؤں معاملہ سامنے آنے کے بعد سے ہی پرگیہ سرخیوں میں رہی ہیں۔ وہ میڈیا کے ایک خاص طبقہ میں خود پر ظلم کیے جانے کی شکل میں ہمدردی بھی بٹورتی رہی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ سرخیوں میں کس طرح رہا جائے۔ اسی لیے وہ کبھی وہیل چیئر پر بیٹھ جاتی ہیں اور کبھی اپنے پیروں پر چلنے لگتی ہیں۔ ویسے ان کی پہلے محدود اپیل رہی ہے، اس لیے انھیں اندازہ نہیں ہے کہ ان کی بات کتنی دور تک اور کس طرح جا سکتی ہے۔

ہیمنت کرکرے سے متعلق دیا گیا ان کا بیان اسی طرح کا تھا۔ وہ ’سدرشن ٹی وی‘ جیسے چینلوں پر تو یہ بات کہتی رہی ہیں لیکں بی جے پی امیدوار کے طور پر جیسے ہی اصل دھارے کی میڈیا میں ان کا یہ بیان سامنے آیا، شہید کے تئیں بے عزتی کا مسئلہ گرم ہو گیا اور بالآخر انھوں نے خاموش طریقے سے ہی سہی، اپنا بیان واپس لے لیا۔


اسی لیے آر ایس ایس کی ہدایت پر بی جے پی نے پرگیہ کو متنازعہ بیانات سے بچنے کا مشورہ دیا ہے۔ پارٹی کے قومی نائب صدر پربھات جھا کو پرگیہ کو یہ سب بتانے کی ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ کب، کہاں اور کیا بولیں اور کیا نہیں بولیں۔ پربھات جھا ریاستی بی جے پی صدر رہے ہیں اور اس وقت راجیہ سبھا رکن ہیں۔

لیکن پرگیہ کی امیدواری سے متعلق کوئی تذبذب نہیں ہے۔ بھوپال کے موجودہ رکن پارلیمنٹ آلوک سنجر کا ٹکٹ کاٹنے کے باوجود ان کا پرچہ نامزدگی داخل کرانے کی وجہ صرف یہ ہے کہ پارٹی قیادت کو لگتا رہا ہے کہ پرگیہ نے ایسے بیان دے دیے ہیں کہ کسی قانونی معاملے میں الیکشن کمیشن کہیں ان ی امیدوار رَد نہ کر دے۔ ایسے میں سنجر کو ڈمی سے رئیل امیدوار بنایا جا سکتا ہے۔ شہید ہیمنت کرکرے کو اپنی بد دعاء سے مار ڈالنے والے پرگیہ کے بیان کے سبب کمیشن نے حکومت کو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کو کہا اور بی جے پی اسی لیے خوفزدہ ہے۔

(چندر کانت نائیڈو کی رپورٹ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 26 Apr 2019, 10:10 AM