دہلی کی 16 مسجدوں سے متعلق ظفرالاسلام خان کے الزام پر پولیس نے دیا جواب
دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ ظفرالاسلام خان جن مساجد کی بات کر رہے ہیں، وہ سبھی ہندوستانی آثارِ قدیمہ سروے (اے ایس آئی) کی نگرانی والے مقامات ہیں۔
دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ظفرالاسلام خان نے 20 مارچ کو ایک ٹوئٹ کیا تھا جس میں روزنامہ ’انقلاب‘ نے ایک خبر شیئر کی تھی۔ اس خبر میں جانکاری دی گئی تھی کہ دہلی پولیس نے 16 مقامات پر جمعہ (18 مارچ) کی نماز نہیں ہونے دی۔ دراصل گزشتہ جمعہ کو ہولی اور شب برأت ایک ساتھ منائی گئی۔ اس دوران دہلی میں پولیس کی سیکورٹی بھی کافی سخت تھی۔
بہرحال، ظفرالاسلام خان نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ ’’دہلی کے پنچ شیل علاقے کی 16 مساجد میں پولیس نے نمازِ جمعہ کی اجازت نہیں دی۔ ایک بے حد پرانی مسجد کے امام نے کہا کہ ایسا 50 سالوں میں پہلی بار ہوا جب اس طرح نماز پڑھنے سے انھیں روک دیا گیا۔‘‘ ساتھ میں انھوں نے لکھا ’’آج کے انقلاب سے۔‘‘
اس الزام کے بعد دہلی پولیس کا جواب سامنے آیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ظفرالاسلام خان جن مساجد کی بات کر رہے ہیں، وہ سبھی ہندوستانی آثارِ قدیمہ سروے (اے ایس آئی) کی نگرانی والے مقامات ہیں۔ ان میں سورج طلوع ہونے سے پہلے اور سورج طلوع ہونے کے بعد داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ پولیس نے یہ بھی بتایا کہ کافی سالوں سے دہلی میں دیکھا گیا ہے کہ شب برأت کے موقع پر دہلی، خصوصاً نئی دہلی میں بائیکرس بڑے پیمانے پر ہنگامہ کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے کئی بار نظامِ قانون بگڑ جاتا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو ہولی اور شب برأت کا تہوار منایا گیا، اس لیے دہلی پولیس نے نظامِ قانون پر دھیان دیتے ہوئے لوگوں کو دیر شام ان عمارتوں میں داخل نہیں ہونے دیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔