اے ایم یو میں پولس کارروائی طلباء تحریک کو کچلنے کی سازش

AMU اسپتال کے ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ جب میں اسپتال پہنچا تو یونیورسٹی کے طلبا یونین صدر سلمان امتیاز بری طرح ہانپ رہے تھے۔ انھیں آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ان کا دم نکلنے والا ہے

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد
user

آس محمد کیف

’’مجھے رات میں فون آیا تھا کہ فوراً اسپتال آ جائیے، ایمرجنسی ہے۔ میں اور میری ڈاکٹر بیوی جب یونیورسٹی کے دروازے پر پہنچے تو وہاں سول پولس کے داروغہ نے مجھے روک دیا۔ یہ حیرت انگیز تھا کہ یونیورسٹی میں داخلہ کا کنٹرول ہی باہری پولس کے ہاتھ میں تھا۔ یونیورسٹی کا اپنا انتظامیہ نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں ڈاکٹر ہوں اور مجھے ایمرجنسی کے لیے بلایا گیا ہے۔ میں اور میری بیوی دونوں یونیفارم میں تھے۔ میں نے اپنا شناختی کارڈ دکھایا۔ میری گاڑی پر ڈاکٹر کا نشان بھی تھا۔ گلے میں آلہ لگا ہوا تھا۔ لیکن پولس نہیں مانی اور مجھے جمال پور والے ایک دوسرے لمبے راستے سے اسپتال جانا پڑا۔ اس سے پہلے میں نے اسی راستے سے پولس کی گاڑیوں کو کیمپس میں جاتے ہوئے دیکھا۔ اے ایم یو اسپتال کا حال دیکھ کر میرا کلیجہ اچھل گیا۔ یونیورسٹی کے 60 سے 70 طلبا بری طرح زخمی تھے۔ کسی کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی، کچھ لہولہان تھے اور درجنوں کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔‘‘ یہ بیان ہے ڈاکٹر عظیم الدین ملک کا جو گزشتہ رات کی تفصیل بتاتے ہوئے پولس انتظامیہ کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

ڈاکٹر عظیم الدین بتاتے ہیں کہ ’’جب میں اسپتال پہنچا تو یونیورسٹی کے طلبا یونین صدر سلمان امتیاز بری طرح ہانپ رہے تھے۔ انھیں آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ان کا دم نکلنے والا ہے۔ سلمان کو ربر بلیٹ لگا تھا اور آنسو گیس کا گولہ بھی۔ میں نے سلمان کو ہمت دی اور علاج شروع کیا۔ ان بچوں کو دیکھ کر میں خود بھی پریشان ہو گیا۔ میں خود ان کا علاج کرنے آیا تھا مگر خود میرا دل بیٹھنے لگا۔‘‘ یہ کہتے کہتے ڈاکٹر عظیم الدین جذباتی ہو گئے۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں ڈاکٹر ہوں۔ مجھے زخمی اسٹوڈنٹس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی۔ انھیں کتنی بے رحمی کے ساتھ پیٹا گیا، کئی کے سر پھوٹے ہوئے تھے، ہاتھ ٹوٹ گئے تھے اور وہ درد سے تڑپ رہے تھے۔ ہم ان کا علاج کرتے ہوئے خود سے سوال کر رہے تھے کہ آخر یہ کیا ہو رہا ہے۔‘‘


ڈاکٹر عظیم بچوں کی اس حالت سے حیران تھے اور ان کا کہنا ہے کہ ’’میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان بچوں نے آخر ایسا کیا جرم کیا تھا جو انھیں اس قدر بری طرح سے پیٹا گیا۔ کوئی جانوروں کو بھی اس طرح نہیں پیٹتا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’پٹائی کی وجہ سے ہاتھ تڑوا چکے ندیم نے مجھے بتایا کہ وہ لائبریری میں تھا اور شور سن کر باہر آیا تو دیکھا کہ کچھ اسٹوڈنٹس کے پیچھے پولس بھاگ رہی تھی۔ جو راستے میں ملا پولس والوں نے اسے مارا، مجھے بھی مارا، میں تو مظاہرے میں شامل بھی نہیں تھا۔‘‘

ڈاکٹر عظیم الدین ’قومی آواز‘ کے نمائندہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ایک بھی زخمی ایسا نہیں تھا جس کو سنگین چوٹ نہ لگی ہو۔ میں بطور ایک ڈاکٹر کہہ سکتا ہوں کہ مارتے وقت یہ نہیں سوچا گیا کہ اس چوٹ کا نتیجہ کیا ہو سکتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ان پر پورا غصہ اتار دیا گیا ہو۔ ان میں ایسے طلبا بھی تھے جو ہاسٹل میں اپنے کمرے میں بیٹھ کر پڑھائی کر رہے تھے۔ پولس نے وہاں پہنچ کر ان کی پٹائی کی۔ پولس ہاسٹل کے میک ڈونلڈ علاقے میں سب سے زیادہ زیادتی کی، یہاں سب سے سینئر اسٹوڈنٹس رہتے ہیں اور اس سے صاف ہوتا ہے کہ پولس ایک منصوبہ بنا کر اور خاص ہوم ورک کے ساتھ یہاں آئی تھی۔‘‘


ڈاکٹر عظیم گزشتہ شب کے ایک واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک زخمی ڈپلومہ انجینئرنگ کے طالب علم شاہویز کو ٹی وی پر دیکھ کر دوبئی سے اس کے پریشان والد کا فون آیا اور فون پر رونے لگے۔ حالات کافی دگر گوں تھے اور ہم جانتے تھے کہ زخمیوں کے گھر والوں کو ہم ڈاکٹرس کو ہی سمجھانا تھا۔

’قومی آواز‘ کے نمائندہ نے ڈاکٹر سلیم سے بھی ان کا تجربہ جاننا چاہا۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ حالت گزشتہ شب کچھ گھنٹے پہلے ہوئے ایک مظاہرہ کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ اس دوران یونیورسٹی کے کچھ بچے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں طلبا کے ساتھ ہوئی زیادتی کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے اور نعرہ بازی کر رہے تھے۔ یونیورسٹی قوانین کے مطابق وہ باب سید گیٹ سے باہر نہیں آ رہے تھے۔‘‘ ایک چشم دید کے مطابق گیٹ کے دوسری طرف بہت بڑی تعداد میں پولس تھی۔ اس دوران طلبا کی طرف سے پولس کی جانب پتھر پھینکے گئے۔ اس کے بعد پولس اچانک سے ایکشن میں آ گئی اور اس نے لاٹھی چارج، ربر بلیٹ اور آنسو گیس کے گولے کی برسات کر دی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے پولس پتھر کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ جانچ کرنے والی بات یہ ہے کہ آخر یہ پتھر چلایا کس نے!


ڈاکٹر سلیم کا کہنا ہے کہ اے ایم یو میں گزشتہ تین دنوں سے مظاہرہ چل رہا تھا، ایس ایس پی علی گڑھ آکاش کلہری نے کیمپس کے اندر ہی پرامن طریقے سے مظاہرہ کرنے کی اجازت دی تھی۔ کل جامعہ میں طلبا کی پٹائی کے بعد طالب علم پھر سے مظاہرہ کر رہے تھے۔ لیکن اس بار پولس کا نظریہ بدلا ہوا تھا۔ ڈی آئی جی خود کمانڈ پر تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ اس بار پولس یہ سوچ کر آئی تھی کہ اسٹوڈنٹس پر حملہ آور ہونا ہے۔ یونیورسٹی کے گارڈ، وائس چانسلر کے ڈرائیور اور 60 سال کے ایک بزرگ کو بھی پولس کے ذریعہ پیٹنے کا واقعہ پیش آیا جس سے ان کا نظریہ واضح ہو جاتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔