سی بی آئی چیف پر فیصلہ آج لیکن شارٹ لسٹ امیدواروں کے نام سلیکٹ کمیٹی کو دینے سے پی ایم او کا انکار
سی بی آئی کے نئے سربراہ پر فیصلے سے قبل ہونے والی میٹنگ سے قبل پی ایم او نے شارٹ لسٹ کیے گئے افسران کے نام اس کمیٹی کے رکن کو دینے سے انکار کر دیا ہے جنہیں فیصلہ لینا ہے۔
سی بی آئی کے نئے ڈائریکٹر کے نام کا اعلان آج ہونے کا امکان ہے لیکن اس نام کو طے کرنے والی کمیٹی کے رکن اور لوک سبھا میں حزب اختلاف کے قائد ملکارجن کھڑگے کو ابھی تک شارٹ لسٹ کیے گئے (منتخب شدہ) افسران کی فہرست نہیں دی گئی ہے۔ کھڑگے لگاتار اس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ا س کے عوض حکومت نے انہیں جو فہرست سونپی ہے اس میں 1983، 1984 اور 1985 بیچ کے تقریباً 90 آئی پی ایس افسران کے نام شامل ہیں۔ اتنا ہی نہیں ان افسران کے بارے میں جو معلومات دی گئی ہیں وہ بھی صرف ان کے بیچ کے حوالہ سے ہے اور کچھ نہیں۔
اس حوالہ سے ملکا رجن کھڑگے نے بتایا، ’’مجھے تاحال شارٹ لسٹیڈ امیدواروں کی فہرست حاصل نہیں ہوئی ہے۔ مجھے جو لسٹ ملی ہے اس میں 90 نام ہیں اور صرف ان کے ریٹائرمنٹ اور ایمپینل منٹ کی معلومات ہے۔ اس میں ان افسران کے تجربہ اورخصوصی مہارت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ‘‘
تو کیا کمیٹی کے دوسرے رکن ملک کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو شارٹ لسٹیڈ امیدواروں کی فہرست حاصل ہوئی ہوگی؟۔
کھڑگے بتاتے ہیں کہ ’’جب میرے پاس منتخب شدہ امیداروں کے نام اور ان کی معلومات ہی نہیں ہے تو میں کس طرح ان کا انتخاب کر سکتا ہوں۔ فہرست پر غور کرنے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔ میں اس میٹنگ میں تو جاؤں گا، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔‘‘
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ممکنہ طور پر امیدواروں کی فہرست کچھ خاص میڈیا اداروں کو دستیاب کرا دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چار افسران کے نام پر بحث چل رہی ہے۔ یہ چار نام ہیں وائی سی مودی، راجیش رنجن، رجنی کانت مشرا اور رینا مترا۔
میڈیا رپورٹوں میں پی ایم او کے حوالہ سے بتایا جا رہا ہے کہ حکومت نے سینئرٹی، محنت اور تجربہ کی بنیاد پر 12 امیدوروں کے نام حتمی فہرست میں شامل کیے ہیں۔ تجربہ میں سی بی آئی میں کام اور بدعنوانی کے معاملوں کی جانچ شامل کی گئی ہے۔ لیکن اس فہرست کو کمیٹی کے ارکان کے ساتھ مشترکہ نہ کیے جانے سے حکومت کی نیت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔
غور طلب ہے کہ جو کمیٹی سی بی آئی ڈائریکٹر کا نام طے کرے گی ان میں وزیر اعظم نریندر مودی، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی اور لوک سبھا میں حزب اختلاف کے قائد ملکارجن کھڑگے شامل ہیں۔
اس کمیٹی کی گزشتہ میٹنگ کے دوران سی بی آئی کے اس وقت کے ڈائریکٹر آلوک ورما کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ حالانکہ ایک دن پہلے ہی سپریم کورٹ نے آلوک ورما کو اس عہدے پر بحال کیا تھا۔ حکومت نے آلوک ورما کو گزشتہ سال 23 اکتوبر کو آدھی رات میں جاری ایک حکم کے تحت جبراً تعطیل پر بھیج دیا تھا۔ آلوک ورما نے حکومت کے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس کے بعد کورٹ نے انہیں بحال کیا تھا۔
لیکن اگلے ہی دن حکومت نے اعلی اختیارات حاصل کمیٹی کی میٹنگ طلب کر کے آلوک ورما کو عہدے سے دستبردار کر دیا۔ کمیٹی میں شامل ملکارجن کھڑگے نے اس بات کی شکایت کی تھی کہ سی وی سی کی جس رپورٹ کی بنیاد پر آلوک ورما کو ہٹایا گیا وہ رپورٹ کمیٹی کے ارکان کو دی ہی نہیں گئی تھی۔ انہوں نے یہ بھی اعتراض ظاہر کیا تھا کہ سی وی سی اور انتخابی کمیٹی نے آلوک ورما کو موقف پیش کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا۔ لیکن کھڑگے کے اعتراض کو نظر انداز کر دیا گیا۔
دریں اثنا، این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق جن افسران کو سی بی آئی سربراہ عہدے کے لئے منتخب کیا گیا ہے ان میں گجرات کے ڈی جی پی 1983 بیچ کے شیوانند جھا، بی ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل رجنی کانت مشرا، این آئی کے سابق سربراہ وائی سی مودی اور ممبئی پولس کمشنر سبودھ جائسوال کے نام شامل ہیں۔
اس کے علاوہ آؤٹ لُک نے اس فہرست میں 1983 بیچ کی آئی پی ایس رینا مترا، 1984 بیچ کے جاوید احمد، 1985 بیچ کے اوم پرکاش ملہوترا، 1985 بیچ کے ہی ارون کمار، رشی راج سنگھ اور کیرالہ کیڈر کے لوک ناتھ بہرا کے ساتھ ہی دہلی کے پولس کمشنر امولیہ پٹنایک کا نام بھی شامل ہیں۔
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ مودی حکومت ایسے افسران کو سی بی آئی سے ہٹانے کے مشن میں مصروف ہے جو اسے پسند نہیں ہیں۔ ابھی دو روز قبل ہی سی بی آئی کے عبوری ڈائریکٹر ایم ناگیشور راؤ نے 20 افسران کو ادھر اُدھر کیا ہے ۔ راؤ اب تک 40 افسران کا تبادلہ کر چکے ہیں۔ سی بی آئی کا کہنا ہے کہ ’’یہ تبادلے سسٹم کو صاف کرنے اور سی بی آئی کے اندرونی معاملات کو درست کرنے کے لئے کیے گئے ہیں۔‘‘
ملکارجن کھڑگے نے 16 جنوری کو وزیر اعظم کے نام خط لکھ کر مطالبہ کیا تھا کہ سی بی آئی ڈائریکٹر کی تقرری کے لئے اعلیٰ اختیارات حاصل کمیٹی کی میٹنگ فوری طلب کی جانی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ گزشتہ میٹنگ کا بیورہ بھی عوامی کیا جانا چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔