مودی کی طرف سے انتخابی ضابطہ اخلاق کی جم کر ہوئیں خلاف ورزیاں
ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیاں کرنے والا شخص اگر ملک کے اعلی ترین عہدے پر فائز ہو تو آئینی حقوق ہونے کے باوجود الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بن کر رہ جاتا ہے۔
اترپردیش کی کیرانہ لوک سبھا سیٹ اور نورپور کی اسمبلی سیٹ کے ساتھ دیگر ریاستوں میں لوک سبھا کی 3 اور اسمبلی کی 9 سیٹوں کے لئے تشہیر کی مدت ہفتہ یعنی 26 مئی کو شام 5 بجے ختم ہو چکی تھی۔ انتخابی مثالی ضابطہ اخلاق کے مطابق اگر کوئی بھی سیاسی جماعت یا امیدوار طے شدہ مدت کے بعد ووٹروں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے تو اسے انتخابی مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ متعلقہ شخص کے امیدوار کی نامزدگی تک منسوخ کی جا سکتی ہے۔ الیکشن کو غیر جانب دار، شفاف اور آزادانہ بنانے کے ساتھ کسی بھی جماعت کی طرف سے مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہ ہو اس کو یقینی بنانا اور خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار انتخابی کمیشن کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
لیکن جب اصول اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والا شخص ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہو تو آئینی حقوق ہونے کے باوجود الیکشن کمیشن محض خاموش تماشائی بن کر رہ جاتا ہے۔
گذشتہ اتوار یعنی 27 مئی کو یہی ہوا۔ ضمنی انتخابات کے عین ایک دن قبل جب وزیر اعظم نریندر مودی صبح سے لے کر شام تک اور یہاں تک کہ الیکشن والے دن بھی کسی نہ کسی طور سے ووٹروں کو متاثر کرنے یا مائل کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے۔
اتوار کا پورا دن ہی نریندر مودی نے ٹی وی چینلوں کے کیمروں کے سامنے گزار دیا۔ کہاں تو ان کے پاس وقت نہیں تھا کہ ایسٹرن پیریفیرل ایکسپریس وے کا افتتاح کرنے کا۔ آخر سپریم کورٹ کو کہنا پڑا، ’’ہم ایسٹرن پیریفیرل ایکسپریس وے کو عام لوگوں کے لئے کھولنے کا غیر معینہ مدت تک وزیر اعظم کا انتظار نہیں کر سکتے۔ جیسے بھی ہو اسے یکم جون تک کھول دیا جائے، خواہ وزیر اعظم کے پاس اس کے لئے وقت ہو یا نہ ہو۔‘‘
سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ گزشتہ دنوں اس وقت آیا جب نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے عدالت عظمیٰ سے کہا کہ وزیر اعظم بہت مصروف ہیں اور ان کے پاس ابھی ایکسپریس وے کے افتتاح کا وقت نہیں ہے۔ ہوتا بھی کیسے؟ کیونکہ وزیر اعظم کرناٹک میں اپنی پارٹی کے لئے طوفانی انتخابی تشہیر میں مصروف تھے۔ لیکن جیسے ہی کرناٹک میں ان کی تشہیر کی ناکامی پر عوام نے مہر ثبت کی اور زبردستی گورنر کے عہدے کا غلط استعمال کر کے اپنی تشہیر کو کامیاب ثابت کرنے کے لئے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، تو سپریم کورٹ نے ان کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا اور آخر کار وزیر اعظم کی پارٹی بی جے پی کو اعتماد کا ووٹ حاصل ہونے سے قبل منھ چھپا کر بھاگنا پڑا۔ اس کے بعد وزیر اعظم کے پاس وقت ہی وقت ہو گیا۔
کیرانہ سمیت دیگر ضمنی انتخابات سے عین ایک روز قبل دن بھر کے لئے وزیر اعظم ملک کے لئے وقف ہو گئے۔ نصف سے بھی کم تعمیر شدہ دہلی-میرٹھ ایکسپریس وے روڈ شو، من کی بات اور پھر ایسٹرن پیریفیرل ایکسپریس وے کے افتتاح کے بہانے عوامی اجلاس میں نئے نئے اعلانات اور اپوزیشن جماعتوں پر حملے کرتے ہوئے وزیر اعظم نے انتخابی مثالی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑا دیں۔
اتوار کو علی الصبح وہ گاڑیوں کے سرپٹ دوڑنے کے لئے تعمیر کئے گئے دہلی-میرٹھ ایکسپریس وے کے افتتاح کے لئے کچھوے کی رفتار سے رینگتے ہوئے قافلہ کے ساتھ افتتاح کرنے نکلے اور ٹی وی چینلوں پر اس کو براہ راست نشر کیا گیا۔ اس ایکسپریس وے کا صرف 9 کلومیٹر حصہ ہی مکمل ہو پایا ہے وہ بھی صرف دہلی کی سرحد میں، وزیر اعظم سمیت ان کی پوری کابینہ اور بی جے پی یہ کہتے نہیں تھکتی کہ اب صرف 46 منٹ میں دہلی سے میرٹھ کا سفر پورا ہو جائے گا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دہلی کی سرحد ختم ہوتے ہی ٹریفک کا جو حال ہے وہ اس راستہ سے گزرنے والے ہی جانتے ہیں۔ 45 منٹ میں میرٹھ پہنچنا تو دور دہلی کی سرحد سے غازی آباد شہر تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اس روڈ شو کے بعد وزیر اعظم باغپت پہنچے اور ایسٹرن پیریفیرل ایکسپریس وے کا افتتاح کیا۔ لیکن وزیر اعظم کا مقصد ایکسپریس وے کے افتتاح کے بہانے کیرانہ ضمنی انتخاب کے لئے راہ ہموار کرنا تھا۔ کیرانہ میں پیر کے روز (28 مئی) پولنگ ہوئی۔ باغپت میں وزیر اعظم نے جو کچھ بھی کہا وہ کسی انتخابی جلسہ عام سے کم نہیں تھا۔ ان کے اس روڈ شو اور باغپت کے جلسہ عام کو نیوز چینلوں پر براہ راست نشر کیا گیا اور ووٹروں کو متاثر کیا گیا، یہ سیدھا سیدھا انتخابی مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا معاملہ تھا۔
اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کمیشن سے اس کی شکایت بر وقت کی تھی لیکن اپوزیشن کی سماعت ہو ہی کہاں رہی ہے جو الیکشن کمیشن ان کی سنتا، ان کی عرضی خارج کر دی گئی۔ مودی نے باغپت کے جلسہ عام میں اپنا پورا وقت کانگریس کی برائیاں کرنے میں صرف کر دیا۔ چونکہ یہ سب کچھ وزیر اعظم جیسے عہدے پر فائز شخص کر رہا تھا اس لئے الیکشن کمیشن کو اس میں کچھ غلط نظر نہیں آیا۔
بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی، جب لوک سبھا کی 4 اور اسمبلی کی 10 سیٹوں کے لئے پولنگ چل ہو رہی تھی تو وزیر اعظم پھر سے ٹی وی پر نمودار ہو گئے۔ بہانا ’اوجولا منصوبہ‘ کے مستفیضین سے ڈائیلاگ کا تھا۔ اس پروگرام کو بھی نام نہاد قومی چینلوں نے لائیو نشر کیا۔ ادھر یو پی کے وزیر اعلیٰ بھی ٹی وی پر اور اخبارات میں نظر آنے لگے۔ یوں تو پروگرام اترا کھنڈ میں تھا جہاں انہیں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا تھا، لیکن کیرانہ سے اس پروگرام کا فاصلہ زیادہ دور نہیں تھا۔
وزیر اعظم کو اس بات کا دھیان رکھنا ہوگا کہ عوام کو وہ سب کچھ نظر آ رہا ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اقتدار کا غلط استعمال کبھی حکمرانی کا متبادل نہیں ہوتا اور سب سے بڑی بات یہ کہ وزیر اعظم کے پاس یہ سب کچھ کرنے کے لئے اب محض ایک سال ہی بچا رہ گیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔