منی پور تشدد معاملہ پر وزیر اعظم مودی اپنی خاموشی توڑیں اور ریاست کا دورہ کریں: کانگریس
جئے رام رمیش نے کہا کہ وزیر اعظم کو خاموشی توڑتے ہوئے جلد منی پور کا دورہ کرنا چاہیے تاکہ انتظامیہ میں اعتماد بحال کرنے اور ریاست میں معمول کے حالات واپس لانے کے لیے کوششیں کی جا سکیں۔
کانگریس پارٹی نے گزشتہ سوا مہینے سے منی پور میں جاری تشدد کو لے کر وزیر اعظم مودی کی خاموشی پر سوال کھڑے کیے ہیں۔ کانگریس پارٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعظم اپنی خاموشی توڑیں اور جلد از جلد منی پور کا دورہ کریں۔ سبھی متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے اور سبھی متاثرین سے ملنے کے لیے ایک قومی کل جماعتی نمائندہ وفد کو منی پور بھیجا جائے۔
پیر کے روز کانگریس جنرل سکریٹری اور موصلات و میڈیا محکمہ کے انچارج جئے رام رمیش، جنرل سکریٹری مکل واسنک اور منی پور انچارج بھکت چرن داس نے نئی دہلی واقع کانگریس ہیڈکوارٹر میں منعقد پریس کانفرنس میں یہ مطالبات رکھے۔ پریس کانفرنس میں جئے رام رمیش نے کہا کہ وزیر اعظم مودی کو اپنی خاموشی توڑتے ہوئے جلد از جلد منی پور کا دورہ کرنا چاہیے تاکہ انتظامیہ میں اعتماد بحال کرنے اور ریاست میں معمول کے حالات واپس لانے کے لیے سبھی کوششیں کی جا سکیں۔ اسی کے ساتھ سبھی متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے اور سبھی متاثرین سے ملنے کے لیے ایک قومی کل جماعتی نمائندہ وفد کو منی پور جانے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
میڈیا کے سامنے مکل واسنک نے کہا کہ مرکزی وزیر داخلہ کے تین روزہ دورے پر منی پور جانے اور کئی اقدام کرنے سے متعلق ان کے اعلان کے دو ہفتہ بعد بھی ریاست جل رہی ہے۔ ان سبھی علاقوں میں تشدد اور آگ زنی جاری ہے، جہاں نسلی تشدد سے متاثر دو طبقات رہتے ہیں۔ کئی اضلاع میں کراس فائرنگ ہو رہی ہے۔ قومی شاہراہ 19 اور قومی شاہراہ 37 اب بھی بلاک ہیں۔ اس وجہ سے ضروری سامانوں کی سنگین کمی ہے۔
پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ بے گھر ہوئے لوگوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ ان میں سے کم از کم 50 ہزار لوگ 349 راحتی کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ آفیشیل طور سے مرنے والوں کی تعداد 100 سے زیادہ ہے۔ کئی لوگ اب بھی لاپتہ ہیں۔ وہ کہاں ہیں، اس کی کوئی جانکاری نہیں ہے۔ کئی مہلوک اب بھی سرکاری اسپتالوں کے مردہ خانہ میں ہیں۔ ان کی لاش ان کے اہل خانہ کو نہیں سونپے گئے ہیں۔ انٹرنیٹ پر پابندی 15 جون تک بڑھا دیا گیا ہے۔ ریاستی حکومت یا مرکزی حکومت کے ذریعہ کی گئی کسی بھی کارروائی سے منی پور کے لوگوں میں اعتماد پیدا نہیں ہوا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ کی سخت تنبیہ کے باوجود لوٹے گئے ہتھیاروں اور گولہ بارود کا کافی کم مقدار میں واپس کیا جانا اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
مکل واسنک نے کہا کہ منی پور میں 3 مئی سے جس طرح کے نسلی تشدد شروع ہوئے، ویسا منی پور کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ تشدد بھڑکنے کے بعد سے اہم اپوزیشن پارٹی کی شکل میں کانگریس پارٹی نے کئی قدم اٹھائے ہیں۔ کانگریس پارٹی نے 4 مئی کو ریاستی کانگریس صدر اور قانون ساز پارٹی کے لیڈر کی قیادت میں ایک نمائندہ وفد نے گورنر سے ملاقات کی اور منی پور میں عام حالات بحال کرنے کے لیے حکومت ہند سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا۔ 9 مئی سے 10 مئی تک منی پور کے کانگریس انچارج بھکت چرن داس نے ریاست کا دورہ کیا۔ 17 مئی کو بڑے پیمانے پر ہوئے تشدد کے اسباب کا پتہ لگانے اور اس کی وسعت کا اندازہ کرنے کے لیے کانگریس صدر نے تین رکنی ’فیکٹ فائنڈنگ ٹیم‘تشکیل دی۔ 18 مئی اور 19 مئی کو فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے اراکین میں وہ خود، ڈاکٹر اجئے کمار اور سدیپ رائے برمن نے منی پور کا دورہ کیا۔ انھیں انتظامیہ نے امپھال میں کانگریس پارٹی دفتر سے آگے نہیں جانے دیا۔ 30 مئی کو کانگریس صدر اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر کی قیادت میں 8 رکنی نمائندہ وفد نے 12 مطالبات کے ساتھ ہندوستان کی صدر دروپدی مرمو کو ایک عرضداشت پیش کیا۔ اسی کے ساتھ 3 مئی کو تشدد بھڑکنے کے بعد سے منی پور ایشو پر نئی دہلی واقع کانگریس ہیڈکوارٹر میں 4 پریس کانفرنسز ہوئی ہیں۔
منی پور انچارج بھکت چرن داس نے کہا کہ وزیر داخلہ امت شاہ کو منی پور جانے میں 25 دن کا وقت لگا۔ تشدد شروع ہوئے 44 دن ہو گئے لیکن پی ایم مودی منی پور کے حالات پر خاموش ہیں۔ انھوں نے حکومت سے سوال پوچھتے ہوئے کہا کہ آخر من کی بات کی 100ویں قسط کے بعد سے وزیر اعظم نے منی پور کے بارے میں کچھ بھی کیوں نہیں بولا؟ منی پور کی بات کا کیا ہوا؟ 30 مئی کو مرکزی وزیر داخلہ نے 15 دنوں کے امن کی جو اپیل کی تھی، وہ پوری طرح ناکام کیوں ہو گئی؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔