مودی-شاہ ہر بار کام نہیں آئیں گے، کیجریوال کا ’بھگوا اوتار‘ تشویش ناک: آر ایس ایس

سنگھ کی ترجمان انگریزی میگزین نے لکھا ہے کہ کوئی غلط امیدوار صرف یہ کہہ کر فرار نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ ایک اچھی پارٹی سے ہے، ہر مرتبہ مودی اور شاہ ہر مدد نہیں کر سکتے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: دہلی اسمبلی انتخابات میں شکست کے بعد بی جے پی صدمے میں ہے اور اندر خانہ دہلی بی جے پی میں قیادت کے تئیں عدم اطمینان پیدا ہو رہا ہے۔ بڑے اور چھوٹے بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے ریاستی قیادت کو خط لکھ کر پارٹی کے کام کاج اور اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی حکمت عملی پر سوال اٹھا دئے ہیں۔

دریں اثنا، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) بھی بی جے پی کی شکست پر ماتم کناں ہے اور قیادت پر سوال اٹھائے ہیں۔ سنگھ نے امیدواروں کے انتخاب پر سوال اٹھاتے ہوئے مزید کہا ہے کہ تنظیم زمینی سطح پر کمزور ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے پارٹی کی انتخابی حالت خراب ہوگئی۔ شکست کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہوئے، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو سخت نصیحت بھی دی ہے۔


سنگھ کی ترجمان انگریزی میگزین نے لکھا ہے کہ کوئی غلط امیدوار صرف یہ کہہ کر فرار نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ ایک اچھی پارٹی سے ہے۔ نیز ہر مرتبہ مودی اور شاہ ہر مدد نہیں کر سکتے ہیں۔

مضمون میں کہا گیا ہے کہ 2015 کے بعد دہلی میں بی جے پی کے زمینی ڈھانچے کی بحالی اور انتخاب کے آخری مرحلے میں انتخابی مہم کو عروج پر لے جانے میں ناکامی، شکست کی ایک بڑی وجہ بنی۔ نریندر مودی اور امت شاہ ہمیشہ اسمبلی سطح کے انتخابات میں مدد نہیں کر سکتے اور دہلی میں تنظیم کو از سر نو کھڑا کرنے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

’آرگنائزر‘ کے ایڈیٹر پرفول کیتکر نے لکھا، ’’دہلی جیسے بڑے شہر میں رائے دہندگان کے طرز عمل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بی جے پی کے ذریعہ اٹھایا گیا شاہین باغ کا ایشو ناکام ہوگیا کیوں کہ اروند کیجریوال نے اس پر اپنا رُخ واضح کر دیا۔

علاوہ ازیں، کیتکر نے بی جے پی کو کیجریوال کے نئے ’بھگوا اوتار‘ کے حوالہ سے بھی متنبہ کیا اور کہا کہ اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے لکھا، ’’مسلم قدامت پسندوں سی اے اے کے نام پر کھڑا کیا گیا جن کیجریوال کی نئی تجربہ گاہ ثابت ہو سکتا ہے۔ کیجریوال کا اس خطرہ پر کیا رد عمل ہے؟ ہنومان چالیسا کا ان کا پاٹھ کہاں تک اصل ہے؟‘‘


غور طلب ہے کہ پارٹی کے بہت سے رہنماؤں کی رائے بھی سنگھ ان خیال سے مماثلت رکھتی ہے۔ ایک رہنما نے تو انتخابی مہم کے دوران ہی کہہ دیا تھا کہ دہلی کے بی جے پی کارکنان انتخابات کے دوران زیادہ پرجوش نظر نہیں آئے اور اگر باہر سے کارکنان کی فوج نہیں بلائی جاتی تو نتیجہ اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہوتا۔

اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک رہنما نے کہا کہ اقتدار میں نہ آنے کا امکان تو تھا لیکن ہار اتنی بری ہوگی اس ذرہ برابر بھی احساس نہیں تھا!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 Feb 2020, 6:45 PM