اجمیر درگاہ کو ’مہادیو مندر‘ قرار دینے کے مطالبہ پر مبنی عرضی ایک عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل

ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا کا کہنا ہے کہ اجمیر کے ہرویلاس شاردا نے اپنی کتاب میں تذکرہ کیا ہے کہ سنکٹ موچن مہادیو مندر کو توڑ کر درگاہ بنائی گئی، اسی بنیاد پر انھوں نے عدالت میں عرضی داخل کی ہے۔

درگاہ اجمیر شریف، تصویر آئی اے این ایس
درگاہ اجمیر شریف، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

راجستھان کے مشہور اجمیر شریف درگاہ کو لے کر جاری تنازعہ عدالت تک پہنچ گیا ہے۔ خواجہ غریب نواز کی اس درگاہ کو ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا نے سنکٹ موچن مہادیو مندر قرار دیا ہے اور اس سلسلے میں اجمیر کی ایک عدالت میں عرضی داخل کی۔ حالانکہ اس عدالت نے حلقہ اختیار کا ایشو بتا کر معاملہ دوسری عدالت کو منتقل کر دیا ہے۔

اجمیر کی مقامی عدالت کے ذریعہ اس معاملہ پر سماعت نہ کرنے کے بعد وشنو گپتا نے کہا کہ وہ اب ضلع جج کے سامنے نئی عرضی داخل کریں گے اور سماعت کے لیے مناسب عدالت میں اپیل کریں گے۔ ان کے وکیل نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ سول کیس کو دوسری عدالت میں منتقل کیا گیا ہے اور اب وہ ضلع جج کے سامنے اسے مناسب عدالت میں پیش کرنے کے لیے درخواست دیں گے۔


اپنی عرضی میں ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا نے دعویٰ کیا ہے کہ درگاہ پہلے سنکٹ موچن مہادیو مندر تھا جسے توڑا گیا اور پھر وہاں پر درگاہ کی بنیاد ڈالی گئی۔ گپتا نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ ہندو اور جین مندر کو منہدم کر یہ درگاہ بنائی گئی ہے اور اس کے ثبوت موجود ہیں۔ انھوں نے اپنی عرضی مین یہ گزارش کی ہے کہ درگاہ کو سنکٹ موچن مہادیو مندر قرار دیا جائے اور وہاں پوجا کرنے کا حق دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے اے ایس آئی سے اس جگہ کا سروے کرانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

وشنو گپتا کا کہنا ہے کہ اجمیر کے ہرویلاس شاردا نے اپنی کتاب میں مہادیو مندر کا تذکرہ کیا ہے اور اسی کتاب کو بنیاد بنا کر انھوں نے اپنی عرضی عدالت میں داخل کی ہے۔ یہ عرضی دہلی کے وکیل ششی رنجن اور اجمیر کے وکیل جے ایس رانا کے ذریعہ داخل کی گئی ہے۔ دوسری طرف درگاہ کے سجادہ نشیں سید نصیرالدین چشتی نے اس دعوے کو سرے سے خارج کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح کے دعوے ہندو-مسلم اتحاد کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے کیے جا رہے ہیں۔ نصیرالدین چشتی کا یہ بھی کہنا ہے کہ درگاہ کی تاریخ صدیوں قدیم ہے، اور اس کے دروازے سبھی مذاہب کے لوگوں کے لیے کھلے ہیں۔ انھوں نے ایسے اداروں پر سخت کارروائی کا مطالبہ بھی کیا ہے جو اس طرح کا مطالبہ کر تنازعہ پیدا کر رہی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔