سپریم کورٹ: مسلمانوں کو پاکستان بھگانے کی عرضی! جج کا تیور دیکھ بھاگ کھڑا ہوا وکیل

عرضی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے عرضی گزار کے وکیل کے خلاف تحریک مذمت منظور کرنے کا انتباہ دیا، اس کے بعد وکیل پیروی کرنے سے پیچھے ہٹ گیا۔

سپریم کورٹ
سپریم کورٹ
user

قومی آواز بیورو

مودی حکومت میں انتہا پسند ہندوؤں کے حوصلے کس قدر بلند ہونے لگے ہیں اس کا احساس اس عرضی سے ہو جاتا ہے جو گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں داخل کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ تمام مسلمانوں کو پاکستان بھیج دیا جانا چاہئے۔ یہ عرضی اس لئے حیرت انگیز تھی کہ ابھی تک تو بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنما زبانی ہی گیدڑ بھبکی دے کر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے تھے لیکن اب ان کی ہمت اتنی بڑھ چکی ہے کہ مسلمانوں کو پاکستان بھگانے کے مطالبہ کو لے کر ملک کی عدالت عظمیٰ کے دروازے تک پہنچ گئے۔

بہرحال، مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کے مطالبہ والی عرضی جمعہ کے روز سپریم کورٹ سے مسترد کر دی گئی۔ یہ معاملہ سماعت کے لئے جسٹس روہنٹن نریمن اور جسٹس ونیت شرن کی بینچ کے سامنے سماعت کے لئے پیش ہوا۔ بینچ کے ججوں نے عرضی کے موضوع پر تشویش کا اظہار کیا اور جسٹس نریمن نے تو عرضی گزار کے وکیل کی عرضی میں کی گئی درخواست کو بلند آواز میں پڑھنے کے لیے کہہ ڈالا۔ اس کے بعد جج نے وکیل سے کہا کہ ’’کیا آپ واقعی چاہتے ہیں کہ اس پر بحث کی جائے! ہم آپ کی بات سنیں گے لیکن آپ کے خلاف تحریک مذمت لائی جائے گی۔‘‘ یہ سن کر وکیل نے اس معاملہ پر بحث کرنے سے ہاتھ کھڑے کر دئے۔ وکیل کے پیچھے ہٹنے کے بعد عدالت نے اس عرضی کو خارج کر دیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں میگھالیہ ہائی کورٹ کے جج ایس آر سین نے بھی کچھ اسی طرح کا شوشہ چھوڑا تھا۔ سین نے کہا تھا کہ تقسیم ہند کے دوران ہندوستان کو ہندو راشٹر ہونا چاہئے تھا۔ جسٹس سین نے یہ تبصرہ ایک عرضی کے تصفیہ کے دوران کیا تھا۔ یہ عرضی ریاستی حکومت کی طرف سے ایک شخص کو سکونت کی سند جاری کرنے سے انکار کرنے کے بعد داخل کی گئی تھی۔

انڈین ایکسپریس کی ایک خبر کے مطابق اس سال فروری میں سپریم کورٹ میں چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی بینچ نے میگھالیہ ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو نوٹس جاری کیا تھا۔ نوٹس میں جسٹس سین کے تبصرہ کو ہٹانے کا حکم دیا گیا۔ اس حوالہ سے عرضی داخل کرنے والی ایڈوکیٹ سونا خان کا کہنا تھا کہ جسٹس سین کا فیصلہ قانونی طور پر نامناسب اور تاریخی اعتبار سے غلط ہے۔

مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کی دھمکی دینا اب عام بات ہو کر رہ گئی ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کا کوئی بھی بڑا یا چھوٹا لیڈر جب دیکھو تب اس طرح کی دھمکی دیتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ سپر اسٹار عامر خان، شاہ رخ خان اور ہندوستان کے سابق نائب صدر حامد انصاری تک کو بھی اس طرح کی دھمکیوں اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک تقریب کے دوران حامد انصاری نے اپنا درد بھی بیان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’ہندوستان کے مسلمان آج فکرمند ہیں۔‘‘

دراصل ملک میں نفرت اور دہشت کا ایسا ماحول ہے کہ شرپسندوں کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس عہدے پر ہیں یا پھر آپ نے زندگی میں کیا شامل کیا ہے۔ اگر آپ مسلمان ہیں اور آپ نے کچھ بھی مودی یا بی جے پی کے خلاف بولا تو آپ کو پاکسان بھیجنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج، مدھیہ پردیش سے بی جے پی کے رہنما کیلاش وجے ورگیہ، وی ایچ پی کی شعلہ بیان رہنما سادھوی پراچی سمیت کئی زیر بحث رہنے والے لوگ لگاتار مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کی بات کرتے رہتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 15 Mar 2019, 3:09 PM