کشمیر: علیحدگی پسند لیڈروں کی گرفتاری اور مذہبی جماعتوں پر کارروائی سے غم و غصہ کی لہر
جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے علیحدگی پسند لیڈروں کے خلاف کارروائی پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’آپ کسی شخص کو قید کر سکتے ہیں، اس کی فکر کو نہیں۔‘‘
سری نگر: وادی کشمیر میں انتظامیہ کی طرف سے علیحدگی پسند لیڈروں اور بعض مذہبی جماعتوں کے خلاف شروع کیے گئے کریک ڈاؤن سے مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ کئی سیاسی لیڈران میں بھی غم و غصہ کی لہر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس سلسلے میں اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے اٹھائے جارہے ایسے اقدام آگ پر تیل ڈالنے کا کام ہی ادا کرسکتے ہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ 24 گھنٹوں سے حریت لیڈروں اور جماعت اسلامی کے کارکنوں کی گرفتاری سے جموں کشمیر میں حالات مزید ابتر ہی ہوں گے۔ انہوں نے سولیہ انداز میں کہا کہ ان لیڈروں اور کارکنوں کو کن قانونی بنیادوں پر گرفتار کیا گیا ہے۔ محبوبہ نے کہا کہ ایک شخص کو تو گرفتار کیا جاسکتا ہے لیکن اس کی فکر محصور نہیں کی جاسکتی ہے۔
دریں اثنا پیپلز کانفرنس کے چیئر مین اورسابق وزیر سجاد غنی لون نے حریت لیڈروں اور جماعت اسلامی کے لیڈران و کارکنوں کی اچانک گرفتاری پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں بھی ایسا کیا گیا لیکن اس سے حالات بدتر ہی ہوئے ہیں۔ انہوں نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ سال 1990 میں بھی لیڈروں کو گرفتار کرکے ملک کے مختلف جیلوں جیسے جودھ پور وغیرہ منتقل کیا گیا لیکن اس کے منفی نتائج ہی بر آمد ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے سے احتراز کرنے کی ضرورت ہے اس سے حالات مزید بد تر ہوں گے۔
دوسری طرف حریت کانفرنس (ع) کے چیئرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک اور جماعت اسلامی کے لیڈروں اور کارکنوں کی گرفتاری کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
واضح رہے کہ انتظامیہ نے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب کو لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک اور جماعت اسلامی کے بعض لیڈروں اور کارکنوں کو گرفتار کیا ہے۔ میر واعظ نے ٹوئٹ میں کہا کہ کشمیریوں کے خلاف ایسے غیر قانونی اقدام ایک فضول مشق ہیں اور ان سے زمینی حقائق بدل نہیں سکتے۔ انہوں نے کہا دھونس دباؤ کی پالسی اختیار کرنے سے حالات بد سے بد تر ہوں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔