بہار: کانگریس کی جن آکانکشا ریلی کو لے کر عوام میں جوش

راہل گاندھی کے تعلق سے بات کرنے پر اکبرعلی کہتے ہیں کہ جس شخص کے خاندان نے ملک کے لیے قربانیاں دیں ہوں اس شخص کے تعلق سے کسی طرح کے شک وشبہات کا اظہار نہیں کیا جاسکتا۔وہ جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں۔

تصویر اے آئی سی سی
تصویر اے آئی سی سی
user

قومی آواز بیورو

’’ترقی کا مطلب ہے پیٹ میں دانا۔یعنی جب عام لوگوں کے پاس کھانے اور پکانے کو ہوگا تبھی وہ وکاس(ترقی) اوروناش( تباہی) کے بارے میں سوچیں گے ۔اگر پیٹ میں دانا ہی نہیں ہوگا تو وہ دیش دنیا کی کیا خاک سوچیں گے،وو تو اپنےآخری سفر کے بارے میں ہی سوچیں گے‘‘۔یہ کلمات کسی آئی پی ایس، آئی اے ایس، ڈاکٹر، انجینئر یا ٹیچر کے نہیں بلکہ گاؤں کی چوپال یعنی’ چائے خانہ‘پر چائے کی چسكي اور دوسرے سے اخبار پڑھا کر دیش دنیا کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے 70 سالہ اکبر علی کے ہیں۔

موجودہ سیاست اور عام لوگوں کی حالت زارپر ایک دو سوال کرتے ہی اکبر علی انتہائی جذباتی ہوکر مرکز کی مودی حکومت پر بےساختہ برس پڑتے ہیں۔بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کے ساڑھے چار سالوں کی مدت کو اپنے انداز و زبان میں مکمل طورپر ناکامبتاتے ہوئے اکبر علی کہتے ہیں :’’ان ساڑھے چار سالوں میں ملک میں تباہی اور فرقہ پرستی کے علاوہ ہوا کیا ہے ۔ صاحب !2 کروڑ لوگوں کو نوکری دینے کے بجائے نوکریاں چھین لی گئی ہیں۔آپ ہی دیکھ لیجئے (ایک اخبار کی کاپی کے صفحات کو اٹھاکر دکھاتے ہوئے) اس میں لکھا ہے کہ نوکری کیسے ختم ہورہی ہے۔اور کہتے تھے کہ ہم ہر سال دوکڑورنوکریاں دیں گے۔‘‘

ایسے میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آج کا بہار اور اس کا ووٹر کتنا بیداراور محتاط ہے۔اکبر علی کے علاوہ بھی اس چائے خانہ میں موجود دیگر لوگ جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل تھے ،نے اپنے اپنے انداز میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کو بیان کیا۔

پہلے توایسالگا کہ شاید اس چائے خانہ میں موجود لوگ شاید ہی کھل کر بات کریں یا پھر بات ہی نہ کریں لیکن جب بات حکومت وقت کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی شروع ہوئی تو مانواکبر علی اور دیگرکو موقع مل گیا اور انہوں نے تمام امورپر کھل کربات کی ۔بات چیت کے دوران وہیں موجود پان کے دکاندار وجے کمار نے بھی حالانکہ اپنی زبان سے کچھ نہیں کہا لیکن سر ہلا کر بات چیت کی تائید کرتے ہوئے نظر آئے۔

فرقہ پرستی کو زہرہلاہل قراردیتے ہوئے اکبر علی نے اسے ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ قراردیااورکہا کہ اس فرقہ پرستی نے حالات ایسے بنا دیئے ہیں کہ اب تو اپنے گھر سے باہر نکلنے میں ڈرلگنےلگاہے۔کب کیا ہوگا کہا نہیں جاسکتاہے۔اور یہ سب اس حکومت کی دین ہے۔حالانکہ ایسا بھی نہیں کہ اس حکومت سے پہلے ایسانہیں ہوتاتھا۔پہلے ہوتا تھا لیکن منظم طور پرایسا کبھی نہیں ہوا۔نہ ہی فرقہ پرستی کو فروغ دینے والوں کو ایسی پشت پناہی ملی ۔اسی کانتیجہ ہے کہ آج سماجی تانہ بانہ مسمار ہوچکاہے۔

بات جب آگے بڑھی اورکانگریس اور راہل گاندھی تک پہنچی تو انہوں نے کہا کہ کل پرسوں میں گاندھی میدان میں راہل آرہے ہیں، دیکھئے گا، ہوابن جائے گی۔ کانگریس تو مضبوط ہوگی ہی مہاگٹھ بندھن کا بھی بھلا ہوگا۔

راہل گاندھی کے تعلق سے بات کرنے پر اکبرعلی کہتے ہیں کہ جس شخص کے خاندان نے ملک کے لیے قربانیاں دیں ہوں اس شخص کے تعلق سے کسی طرح کے شک وشبہات کا اظہار نہیں کیا جاسکتا۔وہ جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں۔ ابھی آپ نے دیکھا نا،تین ریاستوں میں حکومت بنی ہے ،راجستھان،مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ میں۔سب جگہ کسانوں کا قرض معاف کردیا نا۔مطلب کہ جو کہا سوکردیا۔

جب بات راہل گاندھی کے ذریعہ حکومت بننے کے بعد کم از کم آمدنی اسکیم کے تحت ہر ایک خاندان کو طے شدہ رقم دینے کے تعلق سے کی گئی تو انہو ں نے ایک دم سے کہا :دیکھ لیجئے گا جو کہا ہے وہ ہوگا ہی۔اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں۔

لب لباب یہ کہ موجود ہ وقت میں بہار میں سیاسی فضا کروٹ لے رہی ہے ۔ساڑھے چار سالوں کے اقتدار سے مایوس عوام اب پھر سے کانگریس کی جانب دیکھ رہے ہیں ۔ایسے میں راہل گاندھی کی مجوزہ ریلی نہ صرف عوام کے درمیان جوش وخروش میں اضافہ کرے گی بلکہ آنے والے لوک سبھا انتخابات کےلیے بنیادمضبوط کریں گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔