وارانسی کے نقشے سے مِٹ چکے ’لاہوری محلے‘ کے لوگ مودی کے لیے کر رہے بد دعاء
وارانسی کے ’لاہوری محلہ‘ کو سکھ حکمراں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 19ویں صدی میں بسایا تھا۔ لیکن پی ایم مودی کے دیرینہ کاشی وشوناتھ کاریڈور پروجیکٹ کے سبب یہ محلہ نیست و نابود ہو گیا۔
کبھی چہل پہل سے بھرا لاہوری محلہ وارانسی کے نقشے سے غائب ہو گیا ہے۔ لیکن لوگوں کے ذہن میں اب بھی اس محلے کی تمام یادیں زندہ ہیں۔ یہاں کے رہنے والے 60 سال کے کرشن کمار شرما عرف منّا مارواڑی بے حد خفا ہیں۔ وہ صرف 20 سال کے تھے جب آر ایس ایس میں شامل ہوئے تھے اور تقریباً چار دہائی تک اس کی خدمت کرتے رہے، لیکن اب وہ خود کو لاوارث محسوس کر رہے ہیں۔
وارانسی کے مندودی علاقے میں ایک زیر تعمیر گھر کے نیچے بیٹھے منّا مارواڑی آر ایس ایس کے ساتھ گزارے گئے دنوں کو یاد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’میں نے تنظیم کو اپنی جوانی دے دی، لیکن بی جے پی حکومت نے میرے ہی پشتینی مکان پر بلڈوزر چلا دیا۔ اور اب کوئی میرے ساتھ نہیں کھڑا ہے۔‘‘
ابھی دو مہینے پہلے تک منّا اپنے تین بھائیوں اور دو بہنوں کے ساتھ دہائیوں سے لاہوری محلے کے اپنے پشتینی مکان میں رہتے تھے۔ لیکن بی جے پی حکومت نے زبردستی ان سے مکان خالی کرا لیا۔ منا کا مکان ان ڈھائی سو مکانوں میں سے ایک تھا جسے کاشی وشوناتھ کاریڈور کے لیے منہدم کر دیا گیا۔ کاریڈور پروجیکٹ وزیر اعظم نریندر مودی کا دیرینہ منصوبہ ہے جسے بی جے پی حکومت تقریباً 600 کروڑ روپے خرچ کر تیار کرا رہی ہے۔ اس منصوبہ کے تحت تقریباً 45000 اسکوائر میٹر جگہ کو خالی کرایا گیا ہے۔
سرکاری دعووں کے مطابق اس پروجیکٹ میں تقریباً 50 فیٹ چوڑا کاریڈور بنایا جانا ہے جو کاشی وشوناتھ مندر کو سیدھے گنگا کے منی کرنیکا گھاٹ سے جوڑے گا۔ لیکن منا جیسے لوگ حکومت کے اس منصوبہ سے قطعی متفق نہیں ہیں۔ منا اس منصوبہ کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ بی جے پی حکومت مودی کی رضامندی سے میرا گھر اجاڑ دے گی۔‘‘ منا نے 2014 میں مودی کی فتح کے لیے جی جان لگا دی تھی، لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ سب بلڈر لابی کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔‘‘ وہ کچھ بی جے پی لیڈروں پر بھی انگلیاں اٹھاتے ہیں، لیکن ان کے نام بتانے سے پرہیز کرتے ہیں۔
چھت کی طرف دیکھتے ہوئے منا ایک ہی سانس میں مودی، بی جے پی اور آر ایس ایس کو بددعاء دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ تو سب پریشان ہیں، لیکن اپنی جان کے خوف سے وہ بی جے پی حکومت اور مودی حکومت کے خلاف بولتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ تو کیا منا کو ان کے گھر کا معاوضہ نہیں ملا ہے؟ اس سوال پر وہ کہتے ہیں ’’آپ مکان کا معاوضہ دے سکتے ہیں، لیکن رشتوں کا جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی کون کرے گا؟‘‘
منا نے اس پروجیکٹ کے خلاف مفاد عامہ عرضی بھی داخل کی تھی اور مرکز اور یو پی حکومت پر لوگوں کو بے گھر کرنے اور وارانسی کو برباد کرنے کا الزام لگایا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ بی جے پی حکومت نے دھوکہ دہی کر زمین پر قبضہ کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’’میری عرضی سے گھبرا کر یوگی حکومت نے زمین پر قبضہ گورنر کے نام پر کیا ہے، کیونکہ کاشی وشوناتھ مندر ایکٹ کے تحت حکومت اور مندر انتظامیہ 10000 روپے سے اوپر کی کوئی بھی ملکیت نہیں خرید سکتی۔ اسی لیے حکومت نے حصول اراضی کے لیے دوسرا طریقہ اختیار کیا۔‘‘
منا کی ہی طرح ’لاہوری محلے‘ کے قریب 2500 لوگ ہیں جن کے پشتینی گھر اجڑے ہیں۔ منا بتاتے ہیں کہ ’’میری ہی طرح یہاں کے تمام لوگ مودی کے سخت حامی تھے، لیکن اس بار ہم نے نوٹا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ منا دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے اثر میں تقریباً 500 ووٹ ہیں اور وہ سب احتجاجی طور پر نوٹا کا استعمال کریں گے۔
اس محلے کو 19ویں صدی میں سکھ حکمراں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے دور کے تاجروں کے لیے بسایا تھا۔ تاریخی ریکارڈ بتاتے ہیں کہ جب اندور کی اہلیہ بائی ہولکر نے 1780 میں دوبارہ کاشی وشوناتھ مندر کی مرمت کرائی تو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے سونے کی پلیٹیں بطور عطیہ دی تھیں۔ منا بتاتے ہیں کہ ’’امرتسر کے سورن مندر کے بعد یہ دوسرا مندر ہے جس میں سونے کے گنبد ہیں۔ محلہ تو نقشے سے مٹ گیا لیکن ہماری یادوں سے اسے کون مٹا سکتا ہے...۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 14 May 2019, 2:10 PM