’ہماری مدد کریں‘منی پور میں چرچ کے پادری کی اپیل
تشدد 3 مئی کو شیڈولڈ ٹرائب کا درجہ حاصل کرنے کے میتی طبقہ کے مطالبے کے سلسلے میں شروع ہوا تھا، جس کی ریاست کی قبائلی آبادی بشمول کوکیوں اور ناگاوں نے مخالفت کی ہے۔
"براہ کرم کچھ کریں.... ہم کانگ پوکپی منتقل ہونا چاہتے ہیں تاکہ ہم رشتہ داروں کے ساتھ رہ سکیں۔ شفٹ ہونے میں ہماری مدد کریں،" امپھال میں مقیم پادری اور استاد کھونگسائی نے روایتی تعارف کے بعد ’دی ٹیلیگراف‘ کے نمائندے سے التجا کی۔ کھونگسائی فون پر مایوس دکھائی دئے۔
50 سالہ کھونگسائی دراصل کوکی ہیں اور منی پور کے امپھال کے مضافات میں منتری پوکھوری میں آسام رائفلز کے راحتی کیمپ میں تشدد کے 5,000 متاثرین میں سے ایک ہے۔
کھونگسائی کا خاندان جمعرات کو کیمپ میں اس وقت پہنچا جب ایک ہجوم نے اس کے چرچ، تھیولوجیکل کالج جہاں وہ پڑھاتا تھا، اور جس کوارٹر میں وہ 20 سال سے رہتا تھا اس کو جلا دیا۔
دی ٹیلیگراف میں شائع خبر کے مطابق منی پور میں ہندو اکثریتی میتی اور دیگر قبائلیوں کے درمیان تنازعہ ہے۔تنازعہ میتی اور زیادہ تر عیسائی کوکیوں کے درمیان ہے ۔میتی شہری علاقوں میں رہتے ہیں اور کوکی و دیگر قبائل پہاڑیوں میں مقیم ہیں ان کے درمیاں اس تنازعہ نے دولت مند اور غریب دونوں کو متاثر کیا ہے اور جان و مال کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔
کھونگسائی نے بتایا، "میری بیوی اور بچے جمعرات کو کیمپ میں اس وقت منتقل ہو گئے جب ایک ہجوم امپھال شہر میں کوکی کرسچن چرچ کے احاطے میں داخل ہوا اور تباہی مچا دی۔" کھونگسائی نے کہا کہ "ہمیں اپنی جان کے لیے بھاگنا پڑا۔ سیکورٹی فورسز (صورتحال) کو کنٹرول نہیں کر سکیں۔ میں کمپاؤنڈ میں پیچھے رہ جانے والوں کی دیکھ بھال کے بعد کل (ہفتہ) کیمپ میں شفٹ ہو گیا تھا۔‘‘
کھونگسائی نے کہا کہ چرچ کے احاطے میں رہنے والے تقریباً 300 افراد میں سے 100 سے زیادہ امدادی کیمپ میں منتقل ہو گئے ہیں، جو دوسرے قبائل کے ارکان کو بھی پناہ دے رہے ہیں۔ وہ امپھال کے ریلیف کیمپ سے تقریباً 30 کلومیٹر دور کانگ پوکپی جانا چاہتا ہے، جہاں اس خاندان کے رشتہ دار ہیں۔
" میری بیوی اور ہمارے تین بچوں کے علاوہ، ہمارے 15 رشتہ دار بھی کیمپ میں ہیں۔ میری بھابھی حاملہ ہے۔ براہ کرم ہمیں شفٹ کرنے میں مدد کریں، "انہوں نے کہا۔ "میرے پاس صرف ٹی شرٹ اور پتلون ہے جو میں نے پہنی ہوئی ہے ، ہم کچھ نہیں بچا سکے۔‘‘
کھونگسائی نے کہا کہ اس نے "خفیہ طور پر" چرچ کے احاطے کا دورہ کیا تھا، جو کہ ریلیف کیمپ سے 7 کلومیٹر دور ہے اور میں نے دیکھا کہ "کچھ نہیں بچا؛ جو کچھ بچا تھا وہ لوٹ لیا گیا۔‘‘ کھونگسائی نے مزید کہا "ہمارے لیے امپھال واپس جانا بہت مشکل ہوگا۔ ہمارے لیے دعا کرو، امن کی دعا کرو۔‘‘
کھونگسائی نے کہا کہ کیمپ کے قیدیوں کو دن میں دو وقت کا کھانا ملتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 10,000 سے زیادہ لوگ اپنے "اپنے شہر" میں ریلیف کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔
یہ تشدد 3 مئی کو شیڈولڈ ٹرائب کا درجہ حاصل کرنے کے میتی طبقہ کے مطالبے کے سلسلے میں شروع ہوا تھا، جس کی ریاست کی قبائلی آبادی بشمول کوکیوں اور ناگاوں نے مخالفت کی ہے جو ایس ٹی کا درجہ حاصل کرتے ہیں۔
میتی بھی متاثر ہوئے ہیں۔ امپھال سے تقریباً 60 کلومیٹر دور چورا چند پور قصبے میں چار امدادی کیمپ 5,500 قیدیوں کو پناہ دئے ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر میتی ہیں۔ چورا چند پور ایک پہاڑی ضلع ہے جہاں کوکیوں کی اکثریت ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ منی پور میں مجموعی صورت حال بہتر ہو رہی ہے لیکن معمول پر آنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔
فوج نے کہا کہ 23,000 لوگوں کو "بچایا" گیا ہے اور فورس کے "آپریٹنگ اسٹیشنوں کو فوجی چھاؤنیوں" میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ بدھ سے حالات پر قابو پانے کے لیے فوج اور نیم فوجی دستوں کے تقریباً 7000 اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔
چورا چند پور میں اتوار کی صبح 7 بجے سے دوپہر تک کرفیو میں نرمی کی گئی۔ آج ریاست کے 16 میں سے 11 اضلاع میں دو سے پانچ گھنٹے کے درمیان کرفیو میں نرمی کی جائے گی، سوائے فیرزول کے، جس میں 12 گھنٹے کی نرمی ہے۔
واضح رہے ریاستی حکومت نے اتوار کو راجیش کمار کی جگہ ونیت جوشی کو چیف سکریٹری مقرر کیا ہے ۔ ونیت جوشی پہلے بھی منی پور میں تھے ۔جوشی کی یہ تیسری بڑی تقرری ہے جو جمعرات کے بعد انتظامیہ اور سیکورٹی کو بہتر بنانے کے مرکز کے "مشورے" پر کی گئی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔