فضول ہے یہ بحث کہ لاک ڈاؤن کب لگنا چاہئے! حالات انتہائی خراب
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پہلی لہر کو پار کرنے یا برداشت کرنے کی وجہ سے خود کو جو شیر سمجھنے لگے تھے ان کو وبا کی دوسری لہر نے بتا دیا کہ شیر وہ نہیں بلکہ وبا ہے
سمجھ نہیں آ رہا کہ کورونا وباکو روکنے کے لئے کس بات کو مانا جائے اور کس کو نہیں! کبھی اس وبا کو روکنے کے لئے لاک ڈاؤن اتنا ضروری ہو جاتا ہے کہ اگر ملک میں چند سو کیسز بھی ہوں تو لاک ڈاؤن نافذ کر دیا جاتا ہے اور اس بات کا بھی خیال نہیں کیا جاتا کہ مہاجر مزدوروں کا کیا حال ہوگا؟ ان پر کیا گزرے گی؟ بغیر کسی سواری کے وہ اپنی منزل پر کیسے پہنچیں گے؟ راستے میں بیمار ہو گئے تو کیا ہوگا؟ پیدل ہی اپنے گاؤن کے لئے نکل جانے والے کئی لوگوں کو ریل کی پٹری کھا گئی، کچھ کو سڑک نے ڈس لیا اور جو گھر پہنچے ان کے پاس خوفناک یادوں کے علاوہ کچھ باقی نہیں تھا!
یہ وہ لاک ڈاؤن تھا جس کو رفتہ رفتہ لگایا جا سکتا تھا کیونکہ اس وقت وبا اتنی تیزی سے پھیلی نہیں تھی اور اس میں ان غریبوں کی مدد بھی کی جا سکتی تھی اور ان کو حفاظت کے ساتھ ان کے گھر تک بھی پہنچایا جا سکتا تھا۔ اس وقت فیصلہ مرکز نے لیا تھا اس لئے اس میں کسی خامی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ آج کہا جا رہا ہے کہ لاک ڈاؤن کو آخری ہتھیار کے طور پر ہی استعمال کیا جائے کیونکہ آج کیسز کی تعداد اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ ریاستوں نے اپنے شہریوں کی حفاظت کے لئے خود رات کا کرفیو، ویک اینڈ کرفیو اور کچھ دنوں کے لئے کچھ ضروری سہولیات کے ساتھ لاک ڈاؤن نافذ کر دیا ہے۔
میرے خیال سے یہ بحث ہی فضول ہے کہ اس وقت لاک ڈاؤن لگایا جائے یا نہیں کیونکہ وبا کے کیسز اتنی تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ اس کی چین کو توڑنے یا اس کی رفتار کو کم کرنے کے لئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ اس وقت یہ بھی کہنا غلط ہوگا کہ ملک کی معیشت کی وجہ سے لاک ڈاؤن سے بچنا ضروری ہے کیونکہ معاشی سرگرمیاں پہلے ہی متاثر ہیں اور اس وقت عوام کی صحت ترجیح ہونی چاہئے۔ اتر پردیش حکومت چاہے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر کے اس پر عمل درآمد پر روک لگوا دے لیکن اب یہ ضروری لگ رہا ہے۔ انتخابی مہم کے تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر مرکز اس کا اعلان نہیں کر پائی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ لاک ڈاؤن کی ضرورت نہیں تھی! موجودہ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ لاک ڈاؤن لگایا جائے لیکن اس کے ساتھ حکومتوں کو کئی اور اہم اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پہلی لہر کو پار کرنے یا برداشت کرنے کی وجہ سے خود کو جو شیر سمجھنے لگے تھے ان کو وبا کی دوسری لہر نے بتا دیا کہ شیر وہ نہیں بلکہ وبا ہے اور اب سب ڈرے سہمے گھروں میں بیماری اور بیماری سے ہونے والی اموات کی خبریں سن رہے ہیں۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ حکومتوں نے پہلی لہر کی شدت میں کمی آنے کے بعد کوئی تیاری نہیں کی۔ طبی ڈھانچہ ویسے کا ویسا ہی رہا جس کا خمیازہ اب سب کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ آکسیجن اور اسپتال میں بستروں کی کمی سے ہر خاندان متاثر ہوا ہے۔ مزدور کیجریوال کی ’میں ہوں نا‘ پر بھی یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور وہ ایک سال بعد پھر خوف کے سائے میں گھروں کی جانب گامزن ہیں۔
آج ہم غیر ملکی کے ٹیکوں کو اجازت دے رہے ہیں، یہ کام پہلے کیا جا سکتا تھا۔ اگر ہم یہ کام پہلے کرتے تو ان کمپنیوں سے اپنی شرطیں منوانے میں آسانی ہوتی لیکن آج ہماری ضرورت ہے اس لئے ہمیں اپنی نہیں انکی شرائط ماننی پڑیں گی۔ ساتھ ہی ان کی دستیابی میں بھی تاخیر ہوگی۔ اب بھی حکومت کو دور اندیشی سے کام لینے کی ضرورت ہے، جیسے ہمیں تالی، تھالی یا 9 تاریخ کی رات کو 9 بجے چراغاں جیسے کام کرنے کی ضرورت نہیں تھی ویسے ہی کمیٹیوں اور بال متروں کے استعمال کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے سماج میں نئی نوجوان نسل خود کو حکومت سمجھنے لگے گی اور وہ گھر میں اور سماج میں خودکو بڑا پیش کرنے لگیں گے، جس سے سماج کا تانا بانا بکھر جائے گا۔ حکومت کو خود آگے آ کر قیادت کرنی چاہئے۔ اس کے پاس قوانین نافذ کرنے والی ایجنسیاں بھی موجود ہیں اور بیداری پیدا کرنے والے ادارہ بھی موجود ہیں۔ وبا کی وجہ سے جو حالات پیدا ہوئے ہیں وہ انتہائی خوفناک ہیں اس لئے اس وقت تمام سیاسی پارٹیوں کو سیاست سے اوپر اٹھ کر ملک کو اس وبا سے نجات دلانے کے لئے متحد ہو کر کام کرنا چاہئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔