پاکستان کو بھی سنگین معاشی بحران کا سامنا، لگژری سامان کی درآمدگی پر روک کا مطالبہ!

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو پٹرولیم کی طلب اور درآمدگی پر لگام لگانے کے لیے چار ورکنگ ڈیز کے علاوہ ایک دن گھر سے کام کی اجازت دی جانی چاہیے۔

پاکستان، تصویر آئی اے این ایس
پاکستان، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

پاکستان میں معاشی بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ کاروباری طبقہ نے حکومت سے مہنگے سامانوں کی درآمد پر فوری روک لگانے کی گزارش کی ہے۔ ایمپلائرس فیڈریشن آف پاکستان کے سربراہ اسماعیل ستار نے کہا کہ پاکستان معاشی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسماعیل نے کہا کہ ادائیگی توازن کی بگڑتی حالت، بڑھتی مہنگائی، گھٹتے فوریکس ریزروس اور سیاسی غیر یقینی نے ملک کو ایک خطرک معاشی بحران کی حالت میں پہنچا دیا ہے۔

اسماعیل کے مطابق ’’یہ تباہناک ہے کہ پاکستان 2003 سے لگاتار کاروباری خسارہ کا سامنا کر رہا ہے۔ فوری کارروائی اور حالات کو قابو میں کرنے کے لیے سخت پالیسیاں بنانا وقت کی ضرورت ہے۔‘‘ اے ایل حبیب کیپٹل کے مارکیٹس ہیڈ ریسرچ فواد بشیر نے کہا کہ پاکستان کو یقینی طور سے غیر ضروری درآمدات پر روک لگانے کی ضرورت ہے۔ دی ایکسپریس ٹریبیون نے ان کے حوالے سے کہا کہ یہ کچھ حد تک مدد کرے گا، لیکن یہ شروعاتی نکات ہونا چاہیے۔ انھوں نے بتایا کہ جولائی-مارچ 22-2021 کے دوران پوری طرح سے ناک ڈاؤن (سی کے ڈی) موٹر گاڑی درآمد 1.3 ارب ڈالر تھا، جب کہ پوری طرح سے تیار یونٹ (سی بی یو) درآمد 24 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا۔


فواد بشیر نے کہا کہ اگر ہم اس پر روک لگاتے ہیں تو یہ نہ صرف ہمارے مقامی آٹو موبائل صنعت کو فروغ دے گا بلکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ (سی اے ڈی) پر تقریباً 1.5 ارب ڈالر کے اثر کو بھی کم کرے گا۔ اس کے برعکس کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ درآمدات سے بچنا پاکستان کے لیے بہت مشکل ہوگا۔

پاکستان تجارتی کونسل (پی بی سی) کے چیف ایگزیکٹیو افسر احسان ملک نے نشان زد کیا کہ ایندھن، کھانا، مشینری، کیمیکل، دواؤں جیسے کے لیے درآمد ضروری ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دیگر گھریلو مینوفیکچرنگ اور برآمدات کے لیے ضروری سامان ہیں جیسے کپاس اور انسانوں کے ذریعہ تیار فائبر۔ تقریباً 5 فیصد کا ایک چھوٹا حصہ چھوڑ دیں تو درآمدات پر پابندی معیشت کو نقصان پہنچائے بغیر کام کر سکتی ہے۔


احسان ملک نے کہا کہ اس حصے میں موبائل فون اور گاڑی پوری طرح سے مینوفیکچر شکل میں شامل ہیں، جس میں خشک میوے، جانوروں کے کھانے وغیرہ بھی شامل ہیں۔ بڑھتی قیمتوں کا محدود اثر ہوگا، کیونکہ ان چیزوں کی طلب لچیلی نہیں ہے اور قیمتوں کی بڑھتی شرحوں کے ساتھ بھی اس میں کمی نہیں ہوگی۔

دی ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق اے ایچ ایل کے ریسرچ چیف طاہر عباس کا خیال تھا کہ ملک کو فوریکس ریزروس بچانے کے لیے غیر ضروری درآمدات، خصوصاً لگژری سامانوں پر پابندی لگانے کے لیے مالی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی حکومت کو پٹرولیم کی طلب اور درآمدات پر لگام لگانے کے لیے پانچ سے چھ کام کے دنوں کے مقابلے میں چار کام کے دن اور ایک دن گھر سے کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ بجلی بچانے کے لیے ملک بھر میں بازار کے وقت کو صبح 8 بجے سے شام 6 بجے تک ترمیم کیا جانا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔