یوگی حکومت میں یتیم بے یار و مددگار
روشنی، عرفان اور عثمان کو اس وقت سماجی تنظیموں اور انتظامیہ کی ہمدردی ضرور مل رہی ہے لیکن اس کے مستقبل کو بہتر بنانے کےلیے ہنوز کوئی پختہ انتظام نہیں کیا گیا ہے۔
مراد آباد کے سہالی کھدر گاؤں میں تین یتیم بہن بھائیوں کا ایک ایسا معاملہ روشنی میں آیا ہے جو یوگی حکومت کی بدتر حکمرانی کی تازہ مثال بن گیا ہے۔ روشنی، عرفان اور عثمان تینوں یتیم ہیں۔ ان کی والدہ کا انتقال تو تقریباً 6 سال قبل ہی ہو چکا تھا جب کہ والد کا انتقال گزشتہ رمضان میں ہو گیا۔ ماں باپ کے سایہ سے محروم تینوں بہن بھائیوں کی زندگی بچپن میں ہی ایک بوجھ بن گئی اور اس پر ان کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ ریاست میں یوگی حکومت برسراقتدار ہے جس پر الزام ہے کہ وہ اب تک مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف سازش تیار کرنے اور زہر افشانی کرنے کا کام کرتی رہی ہے۔ اس کو ریاست کے انتظام و انصرام اور عوام کی بنیادی سہولیات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
جہاں تک روشنی، عرفان اور عثمان کے گزر بسر کا سوال ہے، اب تک یہ ’مڈ ڈے میل‘ کے سہارے ہی زندگی گزار رہے ہیں۔ انھیں دیکھنے والا کوئی نہیں ہے اور یہ تینوں اتنے چھوٹے ہیں کہ کوئی انھیں کام بھی نہیں دے سکتا۔ تینوں بھائی بہن قریب کے پرائمری اسکول جاتے ہیں اور بھوک مٹانے کے لیے مڈ ڈے میل کا انتظار کرتے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد پھر دوسرے دن یہی معمول ہوتا ہے۔ جس دن اسکول بند ہو جائے اس دن ان یتیموں کو ایک وقت کا دانہ بھی نصیب نہیں ہو پاتا۔بس یہ یتیم یہ ہی دعا کرتے ہیں کہ کبھی اسکول کی چھٹی نہ ہو۔
10 سالہ روشنی بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہے جب کہ عرفان کی عمر 8 سال اور عثمان کی عمر 6 سال ہے۔ حالانکہ ان کے والد نابینا تھے لیکن جب تک وہ زندہ تھے تو یہ تینوں اپنے سر پر ایک سایہ محسوس کرتےتھے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ غربت اور مفلسی کے باوجود ان کا راشن کارڈ تک انتظامیہ نے نہیں بنایا ہے۔ جب اس سلسلے میں گاؤں کے پردھان سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو پتہ چلا کہ وہ ایک خاتون ہیں اور زیادہ تر ذمہ داریاں ان کے سسر ہی سنبھالتے ہیں۔ جب ان کے سسر اخلاق سے اس سلسلے میں پوچھا گیا تو انھوں نےخاموشی اختیار کر لی۔ ایک اخبار میں جب ان یتیموں کی حالت زار کی خبر شائع ہوئی تو ضلع اور پولس انتظامیہ نے کچھ سرگرمی ضرور دکھائی ہے۔ گزشتہ دنوں بی ڈی او نے علاقے کا دورہ کر کے پردھان سے ان بچوں کو سبھی منصوبوں کا فائدہ پہنچانے کا حکم دے دیا ہے، لیکن اس سلسلے میں ہنوزکوئی مثبت کارروائی دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔
جماعت اسلامی حلقہ اتر پردیش (مغرب) کے سکریٹری مولانا وہاب الدین نے بھی تینوں یتیموں کی حالت زار کی خبر سن کر علاقے کا دورہ کیا اور ان کے لیے وقتی طور پر کچھ انتظامات کیے۔ جب قومی آوازنےمولانا وہاب الدین سے اس سلسلے میں تفصیل جاننے کی کوشش کی تو انھوں نے فون پر بتایا کہ "بچوں کی حالت کافی خستہ ہے۔ جماعت نے ان کے کھانے پینے کے لیے پندرہ دنوں کا انتظام کر دیا ہے اور مقامی لوگوں کو جمع کر کے انھیں سمجھایا ہے کہ یتیم بچوں کی دیکھ بھال کرنا کارِ ثواب ہے اس لیے وہ انھیں تنہا نہ چھوڑیں۔" انھوں نے مزید بتایا کہ "سردی سے بچنے کے لیے کمبل وغیرہ بچوں کو دے دیا گیا ہے اور کسی اچھے اسکول میں ان کا داخلہ کرانے کی کوشش جماعت اسلامی کر رہی ہے۔"
بہر حال، روشنی، عرفان اور عثمان کو اس وقت سماجی تنظیموں اور انتظامیہ کی ہمدردی ضرور مل رہی ہے لیکن اس کے مستقبل کو بہتر بنانے کےلیے ہنوز کوئی پختہ انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ افسوسناک تو یہ ہے کہ خود کو غریبوں کا ہمدرد بتانے والی بی جے پی حکومت ان یتیموں کی طرف سے بے حسی کا ہی مظاہرہ کر رہی ہے۔ سنہالی کھدر گاوں کی روشنی، عرفان اور عثمان کی مفلسی کا پتہ تو اس لیے چل گیا کیونکہ یہ خبر پھیل گئی ورنہ ایسے بدحال اور بے کس و بے یار و مددگار نہ جانے کتنے بچے ہوں گے جن کی سدھ لینے والا کوئی نہیں ہے اور یوگی حکومت سے یہ کوئی امید بھی نہیں لگا سکتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔