شیوراج حکومت کا اصل رپورٹ کارڈ

ریونیو اکٹھا کرنے کے خیال سے ایسے عجیب و غریب فیصلے لینے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ریاستی حکومت مالی طور پر مسلسل مشکلات کا شکار ہے

<div class="paragraphs"><p>چولہے پر کھانا بناتی خاتون</p></div>

چولہے پر کھانا بناتی خاتون

user

کاشف کاکوی

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ بھوپال پہنچے اور 2003-2023 کے لیے 32 صفحات پر مشتمل 'غریب کلیان مہا ابھیان' کے نام سے رپورٹ کارڈ جاری کیا، لیکن ان سے متعلق ویڈیوز اب بی جے پی پر بھاری پڑ رہی ہیں۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پردھان منتری آواس یوجنا کے ذریعے تقریباً 44 لاکھ غریب خاندانوں کو دیہی اور شہری علاقوں میں پکے مکان ملے ہیں۔ پردھان منتری آواس یوجنا (دیہی) کے تحت تعمیر کیے گئے مکانات کی تعداد میں مدھیہ پردیش ملک میں دوسرے نمبر پر ہے لیکن اس بارے میں ویڈیوز دیکھتے اور سنتے ہوئے لوگ خود مختلف جگہوں پر اس کی حقیقت بتا رہے ہیں۔ سیونی ضلع کے لاوی سرا پنچایت کے دیو سنگھ ورکاڑے کو ہی لے لیں۔ ان کا مکان سال 2020 میں منظور ہوا تھا تھا لیکن ابھی تک یہ مکمل نہیں ہوا، پلاسٹر کا کام زیر التوا ہے۔ اسے تین اقساط میں ایک لاکھ 20 ہزار روپے ملے اور کمیشن وغیرہ کی ادائیگی کے بعد رقم اتنی کم ہو گئی کہ مکان مکمل کرنا ناممکن ہو گیا اس لیے اس نے نجی بینک سے قرض لیا۔ پھر بھی کام ادھورا ہے۔

اس کی بھی ایک وجہ ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں اینٹ، سیمنٹ اور لوہے کی قیمتیں تقریباً دوگنی ہو گئی ہیں لیکن اس سکیم کی رقم میں اضافہ نہیں ہوا۔ یہ ایک عام سی بات ہے کہ اضافی رقم پر قرض حاصل کرنے کے لیے لوگوں نے اپنے گھر کی عورتوں کے زیورات تک گروی رکھ دئے ہیں یا قرض نہ ملنے کی صورت میں لوگ اپنے مویشی بیچ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر بیتول کے کیکڑیا کلاں گاؤں کے مشری لال وشوکرما کو لے لیں۔ وہ صرف دیواریں کھڑی کر سکے اور اب اس میں چھت لگانے کی ہمت نہیں ہے کیونکہ اس انہوں نے سود پر ایک لاکھ روپے اتھائے ہیں۔ منڈلا ضلع کے دوپٹہ گاؤں کے گیان سنگھ بھی صرف دیواریں تعمیر کرنے میں کامیاب رہے ہیں کیونکہ انہیں کہیں سے قرض نہیں مل رہا ہے۔


ویسے تو اس نام نہاد رپورٹ کارڈ کی سب سے دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ سوچھ سرویکشن-2022 میں مدھیہ پردیش کو صفائی کے معاملے میں ملک کی بہترین ریاست کے طور پر منتخب کیا گیا ہے لیکن اس میں بیت الخلاء کی تعداد کا ذکر تک نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب بی جے پی سمجھ چکی ہے کہ بیت الخلاء کی تعمیر کی اسکیم کا آخر کار کیا حشر ہوا۔ صورتحال یہ ہے کہ بالاگھاٹ ضلع کی گڑھدا پنچایت کے بورینا گاؤں میں رہنے والے خوشیال مارسکول جیسے لوگ اس اسکیم کی بات کرتے ہی مشتعل ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے والد اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ سال 2020 میں ان کے نام پر بیت الخلا بنایا جانا تھا۔ پنچایت کے لوگوں نے رقم نکال لی ہے لیکن آج تک بیت الخلا نہیں بنایا گیا۔ مارسکول کا کہنا ہے کہ پنچایت والے کہتے رہے کہ وہ آج بیت الخلا بنائیں گے، کل بنائیں گے لیکن آخرکار وہ نہیں بنایا۔ گاؤں میں جو 75 فیصد بیت الخلاء بنے ہیں وہ خستہ حال ہو چکے ہیں، ان کا استعمال بالکل نہیں ہو رہا۔ لوگ باہر رفع حاجت کرنے جا رہے ہیں۔

دراصل، کم از کم مدھیہ پردیش میں اس اسکیم کو لے کر گورکھ دھندہ ہوا تھا۔ سال 2018-19 میں بیتول ضلع کے کھڑکاڈھانا، بوچاکھیڑا میں چار گاؤں والوں کے ناموں سے رقم نکلوائی گئی لیکن بیت الخلاء نہیں بنائے گئے۔ بعد میں شکایت بھی ہوئی تو بس اتنا ہوا کہ سرپنچ سیکرٹری سے 48 ہزار روپے کی ریکوری کی گئی اور کھانا فراہم کیا گیا۔ درحقیقت، یہاں بھی بہت سے گاؤں والوں نے حکومت کی طرف سے بنائے گئے بیت الخلاء کا استعمال چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہ خستہ حال ہو چکے ہیں۔


رپورٹ کارڈ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ پردھان منتری اجولا یوجنا کے تحت 82 لاکھ سے زیادہ خواتین نے کچن کے کالے دھوئیں سے نجات حاصل کی لیکن حکومت بھی اس کی حقیقت سے واقف ہے۔ جس طرح سے کھانا پکانے والی گیس کی قیمت دن دگنی رات چوگنی ہو گئی ہے، اس سے کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ لوگ گیس کو بالکل ری فل نہیں کرا رہے۔ چھندواڑہ کے کھٹیا گاؤں میں رہنے والی سروپ وتی آدیواسی اس کی صرف ایک مثال ہے۔ وہ اب بھی چولہے پر کھانا بنا رہی ہے۔ ان کے شوہر اندرلال تومڑام کا کہنا ہے کہ صرف گاؤں ہی نہیں آس پاس کے لوگوں کا بھی یہی حال ہے۔ اس گاؤں کے چندر لال آدیواسی نے لکڑی کو محفوظ کرنے کے لیے گھر میں صرف ایک چھپرا بنایا ہے۔ جنگل سے لکڑیاں نہ لائیں تو ان کے گھر کھانا بنانا مشکل ہو جاتا ہے۔

ریاست کے عام لوگوں کی کیا حالت ہے، یہ رپورٹ کارڈ میں ہی بیان کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 5 سالوں میں مدھیہ پردیش کے ایک کروڑ 36 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو غربت سے نجات دلائی گئی ہے لیکن اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غریب کلیان انا یوجنا سے 5 کروڑ سے زیادہ لوگ مفت راشن حاصل کر رہے ہیں۔ ریاست کی تخمینہ آبادی 8.5 کروڑ ہے۔ ایسے میں حکومت خود تسلیم کر رہی ہے کہ اب بھی نصف سے زیادہ آبادی کو اناج دینا ہے کیونکہ ان کے پاس ذریعہ معاش نہیں ہے۔ اسی لیے سابق وزیر خزانہ اور کانگریس لیڈر ترون بھانوٹ کہتے ہیں کہ 'بی جے پی آدھا سچ بول رہی ہے'۔


شیوراج حکومت یوپی اور اتراکھنڈ کی طرح مدھیہ پردیش میں مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کی بات کرتی ہے لیکن جس طرح سے ان سے جڑے پروجیکٹوں میں تعمیرات کے معیار کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، مہاکال لوک اس کی ایک مثال ہے جہاں ابھی مئی کے مہینے میں ہی سات میں سے چھ رشیوں کی مورتیاں طوفان میں خرد برد ہو گئیں اور اس معاملے پر حکومت کی شبیہ لوگوں کے سامنے خراب ہو گئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ سال اکتوبر میں اس اسکیم کے پہلے مرحلے کا افتتاح کیا تھا۔ اس رپورٹ کارڈ میں اومکاریشور میں اکاتم دھام کی تعمیر اور آدی گرو شنکراچاریہ، ادویت ویدانت سنستھان، ادویت وان کے 108 فٹ اونچے مجسمے کی ترقی کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے۔ اس کے لیے یہاں 1300 درخت کاٹے گئے، جنہیں نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) نے فروری میں ہی 'غیر قانونی' قرار دیا تھا۔

بھارت ہترکشا ابھیان کے ایک کارکن ڈاکٹر سبھاش باروڈ کا یہاں تک کہنا ہے کہ 'اومکاریشور میں ابھے گھاٹ سے لے کر مورتی کے مقام تک 20 میٹر چوڑی اور 1.2 کلومیٹر لمبی سڑک بنانے کے لیے درخت ہی نہیں کاٹے گئے بلکہ پہاڑ کی شکل ہی بدل گئی۔ مورتی کی جگہ کے سامنے میوزیم بنانے کے لیے پانچ ہیکٹر اراضی کو صاف کیا گیا، چٹانیں اور درخت کاٹے گئے۔ قدرتی پہاڑ پر 10 ہزار سے زائد درخت کاٹے گئے، جس کی تلافی اب کبھی نہیں ہو پائے گی۔ ویسے بھی شیوراج حکومت کو ماحولیات کی کم سے کم فکر ہے۔ ہیروں کی کان کنی کے نام پر بخشواہا جنگل میں ڈھائی لاکھ درختوں کی کٹائی پر جاری جدوجہد نے بھلے ہی کام سست کر دیا ہو، لیکن خطرہ برقرار ہے۔


ریونیو اکٹھا کرنے کے خیال سے ایسے عجیب و غریب فیصلے لینے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ریاستی حکومت مالی طور پر مسلسل مشکلات کا شکار ہے۔ رپورٹ کارڈ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شیوراج کے دور حکومت میں ریاست 'بیمارو' اسٹیٹس سے باہر آ چکی ہے اور ریاست کی معیشت عروج پر ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

کانگریس کے راجیہ سبھا ممبر وویک تنکھا کا کہنا ہے ’’سچ یہ ہے کہ مدھیہ پردیش ناکام ریاست کے زمرے میں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں بدعنوانی اپنے عروج پر ہے۔‘‘ اس کا پردہ فاش کرنے کے لیے 8 اگست کو کانگریس نے 'گھوٹالہ شیٹ' جاری کی ہے۔ تنکھا کا کہنا ہے ’’بی جے پی کے دعوے کتنے جھوٹے ہیں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بی جے پی حکومت نے کئی سرمایہ کاری کانفرنسیں منعقد کیں اور کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی تجاویز کا دعویٰ کیا۔ اگر یہ زمین پر اترے ہوتے تو مدھیہ پردیش کے شہر بنگلورو اور حیدرآباد کی طرح آئی ٹی ہب بن چکے ہوتے لیکن ایسا کچھ نہیں ہو پایا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔