ملک بدلے یا نہ بدلے، مودی بدل رہے ہیں: دگوجے

Getty Images
Getty Images
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے 3 ستمبر کو اپنی کابینہ میں توسیع تو کر دی لیکن جس طرح کے لوگوں کو کابینہ میں شامل کیا گیا ہے اور کئی وزارتوں میں خراب کارکردگی کے باوجود کوئی رد و بدل نہیں کی گئی ، اس سے وہ حزب اختلاف کے نشانے پر آ گئے ہیں۔ کانگریس، سماجوادی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل اور سی پی آئی ایم جیسی پارٹیوں کے اہم لیڈروں نے کابینہ توسیع کو بے سود قرار دیا ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ ’’ملک بدلے یا نہ بدلے، وزیر اعظم مودی بدل رہے ہیں۔‘‘ دراصل دگ وجے سنگھ کا اشارہ کابینہ توسیع میں سیاسی کارکنان کی جگہ بیوروکریٹس پر زیادہ توجہ دیے جانے کی طرف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ بیوروکریٹس کی مدد ضروری ہے کیونکہ بی جے پی کے سیاسی لیڈران ناکارے ہیں۔ کانگریس کے ایک دوسرے سینئر لیڈر اور سابق وزیرخزانہ پی چدمبرم نے وزیر زراعت رادھا موہن سنگھ اور وزیر صحت جے پی نڈا کو مرکزی کابینہ میں بنائے رکھنے پر حیرانی ظاہر کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان دونوں شعبوں میں بحران کی حالت ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے اپنے ٹوئٹر پر سریش پربھو سے مخاطب ہوتے ہوئے لکھا ہے ’’شری پربھو، صنعت (مینوفیکچرنگ ہچکولے کھا رہا ہے) اور کامرس (ایکسپورٹ ٹھہرا ہوا ہے) کی وزارت میں آپ کا استقبال ہے۔ مبارکباد۔‘‘

راشٹریہ جنتا دل کے سربراہ لالو پرساد نے تو کابینہ توسیع کے پورے عمل کو ہی لایعنی قرار دے دیا ہے۔ انھوں نے طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’کھونٹا بدلنے سے کیا بھینس زیادہ دودھ دینے لگے گی؟‘‘ دراصل کئی محکموں میں وزراء کی خراب کارکردگی کو دیکھتے ہوئے نریندر مودی نے انھیں دوسرا محکمہ دے دیا ہے۔ لالو پرساد کا طنز اسی عمل کے پیش نظر ہے۔ اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے کابینہ توسیع کا کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلنے کی بات کہی ہے اور کہا ہے کہ ’’اگر اتنے سارے فیل ہو رہے ہیں تو قصور صرف فیل ہونے والوں کا ہی نہیں ہے۔‘‘ ان کا اشارہ نریندر مودی کی طرف ہے۔ گویا کہ جب کپتان میں ہی خامی ہے تو ان کے اندر کام کرنے والی ٹیم کی کارکردگی پر فرق پڑے گا ہی۔

بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ اور اسمبلی میں حزب مخالف لیڈر تیجسوی یادو نے مرکزی کابینہ میں رد و بدل کے بعد نریندر مودی کے ساتھ ساتھ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’گاڑی کا انجن، اسٹیئرنگ، ٹائر اور بریک بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ نئی گاڑی کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ جب تک ڈرائیور تجربہ کار اور ہونہار نہ ہو، یہ سب کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ مرکزی کابینہ میں شامل بہار کے دونوں ممبران پارلیمنٹ نتیش مخالف خیمہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کا پیغام واضح ہے کہ نتیش کے لیے پریشانیاں بڑھنے والی ہیں۔ کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے کابینہ توسیع پر اپنا رد عمل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت کی شبیہ خراب ہو چکی ہے اس لیے اس طرح کے رد و بدل سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ’’اگر کابینہ میں رد و بدل کا پیمانہ کارکردگی ہے تو یہ وزیر اعظم نریندر مودی پر بھی نافذ ہونا چاہیے۔‘‘

سی پی آئی ایم کے سینئر لیڈر یچوری نے مرکزی کابینہ میں تبدیلی کو خانہ پری قرار دیا اور کہا کہ ’’پورا اقتدار وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے دفتر تک ہی محدود ہے اس لیے کابینہ توسیع سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔ یہ سب نوٹ بندی کی ناکامی سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے کیا گیا ہے۔‘‘ کانگریس ترجمان منیش تیواری نے راجیو پرتاپ روڑی اور بنڈارو دتاتریہ کو ہٹائے جانے کو مرکزی حکومت کی ناکامی سے جوڑا اور دھرمیندر پردھان کی ترقی کو بے سود قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’دھرمیندر پردھان نے کوئی قابل قدر کارنامہ انجام نہیں دیا ہے بلکہ انھوں نے صرف خاص لوگوں کی ترقی کے لیے کام کیا ہے۔‘‘

نریندر مودی کے ذریعہ کابینہ توسیع کی تنقید صرف حزب مخالف پارٹیوں کے لیڈران ہی نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان کی اتحادی پارٹی شیو سینا بھی کر رہی ہے۔ شیو سینا کے سینئر لیڈر سنجے راؤت نے تو کابینہ توسیع کو ’این ڈی اے کی توسیع‘ نہ کہتے ہوئے ’بی جے پی کی توسیع‘ قرار دےد یا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا ہے کہ بی جے پی نے اپنے اس عمل سے ’این ڈی اے‘ کا قتل کیا ہے۔ دراصل کابینہ توسیع میں جو بھی نئے چہرے شامل کیے ہیں سبھی بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں، یہی سبب ہے کہ شیو سینا ناراض ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Sep 2017, 8:04 PM