وبا کے دوران محض 20 فیصد کسانوں کو سرکاری قرض حاصل ہوا، حکومت کے بڑے بڑے دعوے جھوٹے!
کورونا کے دور میں صرف 20 فیصد کسانوں کو ہی سرکاری قرض کا فائدہ حاصل ہوا، اس میں بھی چھوٹے، غریب اور بٹائی پر کھیتی کرنے والے افراد شامل نہیں ہیں، جبکہ حکومت حقیقت معلوم کئے بغیر بڑے بڑے دعوے کر رہی ہے
نئی دہلی: ملک میں کورونا وبا کے بحران کے دوران صرف 20 فیصد کسانوں کو ہی ’پردھان منتری کسان یوجنا‘ کے تحت قرض کی سہولت حاصل ہوئی۔ پی ایم-کیسان کے تحت آنے والے 10.5 کروڑ کسانوں میں سے صرف 2.18 کروڑ کسانوں کو ہی ’کسان کریڈٹ کارڈ‘ جاری کیا گیا۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ بیشتر چھوٹے، غیر درمیانی اور زمین سے محروم کسانوں کو اس وبا کے دوران مشکلات کا سامنا ہے۔
پی ایم-کسان کے ڈیٹا بیس میں صرف انہی کاشتکاروں کو شامل کیا جاتا ہے جن کے پاس اپنی زمین ہے اور زمین سے محروم کاشتکار، ٹھیکے پر زمین لینے والے کاشتکار اور بٹائی پر کاشتکاری کرنے والے افراد اس میں شامل نہیں ہیں۔ اگرچہ کسان کریڈٹ کارڈ مویشی پروری کرنے والے کسانوں اور ماہی گیروں کو بھی فراہم کئے جانے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن انہیں کسان کریڈٹ کارڈ حاصل ہو سکے یا نہیں یہ واضح نہیں ہے۔
پارلیمنٹ میں کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ونسنٹ پالا کے ایک سوال کے جواب میں زراعت اور کسانوں کی بہبود کے وزیر نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ بینکوں نے کل ڈھائی کروڑ کسانوں میں سے 2.18 کروڑ کسانوں کو کریڈٹ کارڈ جاری کیے ہیں۔ انہوں نے کہا، "کووید کے دوران 10.52 کروڑ مستحقین کو پی ایم-کیسان کے تحت 84600 کروڑ روپئے کی ادائیگی کی گئی ہے۔‘‘
ضروری اعدادوشمار کے بغیر وزیر زراعت نے کہا کہ ’آتم نربھر بھارت‘ مہم کے تحت حکومت نے ڈھائی کروڑ اضافی کسان کریڈٹ کارڈز جاری کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے، جو اس سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔ انہوں نے اسے ایک اہم قدم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے کسانوں کو سستے قرض حاصل کرنے میں آسانی ہوگی اور بحران کے وقت دیہی معیشت میں تقریباً 2 لاکھ کروڑ روپئے چلن میں آئیں گے، تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ریاست وار کتنے کسان اس اسکیم سے محروم رہ گئے ہیں۔
کووڈ-19 کے باعث لاک ڈاؤن سے بہت پہلے دیہی علاقے اور زراعت کا شعبہ بحران کی زد میں تھا، تاہم وبا کے دوران یہ بحران مزید گہرا ہو گیا۔ بیشتر کسانوں کو انتہائی چیلنجنگ اور غیر یقینی بوائی کے موسم کا سامنا کرنا پڑا ہے اور انہیں غیر رسمی کریڈٹ سسٹم پر انحصار کرنا پڑتا ہے، مثلاً سود پر رقم حاصل کرنا وغیرہ۔
اندرا گاندھی انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ ریسرچ کے پروفیسر سریجت مشرا کا کہنا ہے کہ، ’’عام اوقات میں بھی باضابطہ کریڈٹ تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے، کسانوں کو زیادہ سود کے بوجھ پر غیر رسمی ذرائع سے قرض لینے پر مجبور کیا گیا، جس کے نتیجے میں لاگت بڑھتی ہے اور کسانوں کی آمدنی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ وبا کے وقت یہ بحران اور بھی گہرا ہو گیا۔‘‘
پچھلے 20-25 سالوں میں کاشتکاروں کے لئے باضابطہ کریڈٹ تک رسائی میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے۔ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے پروفیسر آر کمار کا کہنا ہے کہ، "پچھلے سات سالوں میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ ہمارے یہاں ایسی صورتحال ہے جہاں کاشتکاروں کی باضابطہ قرضوں تک رسائی کم ہو رہی ہے۔ دعووں پر نظر ڈالیں تو ان میں سے نصف سے زیادہ قرضے حقیقی کسانوں کے لئے نہیں ہیں، بلکہ زرعی کاروباری گروپوں اور زرعی کارپوریٹ گروپوں کے لئے ہیں۔ یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ نام نہاد زرعی قرضوں میں سے صرف 40 فیصد ہی حقیقی کسان تک پہنچ پاتے ہیں۔ یہ ایک اور اشارہ ہے کہ باضابطہ کریڈٹ کسانوں تک نہیں پہنچ رہا ہے۔‘‘
پروفیسر رام کمار کا کہنا ہے کہ دیئے گئے زیادہ تر قرض شہری اور میٹرو شہروں میں بینک شاخوں نے دیئے ہیں، دیہی یا نیم دیہی بینک شاخوں نے نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس اسکیم کے حقیقی فائدہ اٹھانے والے کسان نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا، "اس تناظر میں کسان کریڈٹ کارڈوں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ بہت سے کسان کریڈٹ کارڈوں کا استعمال ہی نہیں ہوا۔ ظاہر ہے کہ یہ قرض کسانوں تک پہنچا ہی نہیں۔‘‘
دوسری طرف پروفیسر سریجیت مشرا کا کہنا ہے کہ، ’’حکومت کی متعدد اسکیموں کا نفاذ ناکارہ رہا ہے کیونکہ حکومت تو صرف ہدف طے کرتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد بینکوں کو کرنا پڑتا ہے۔ یہ معلوم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ کارڈ کس کو مل رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں غریب اور پسماندہ کسان اسکیم کے فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔