پیاز کی بڑھتی قیمتوں سے ’پریشان‘ نرملا سیتارمن نے کہا ’میں نہیں کھاتی لہسن-پیاز‘

سیتارمن نے ’میں لہسن-پیاز نہیں کھاتی‘ والا بیان مذاقیہ انداز میں دیا تھا لیکن لوگوں کو ان کا یہ انداز پسند نہیں آیا۔پیاز کی بڑھتی قیمتوں سے عوام پریشان ہیں اس لیے سیتارمن کے بیان سے انھیں تکلیف پہنچی

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

ملک میں پیاز کی قیمت 100 روپے کلو کے پار پہنچ گئی ہے اور اس مہنگائی کو لے کر پارلیمنٹ میں زبردست ہنگامہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ سرمائی اجلاس کے 13ویں دن بھی پیاز کی بڑھتی قیمتوں پر بحث ہوئی جس نے بی جے پی اراکین پارلیمنٹ کی ناک میں دم کر دیا۔ ایک رکن پارلیمنٹ کے سوال پر تو مرکزی وزیر برائے مالیات نرملا سیتارمن حیران کرنے والا بیان دے دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’پیاز کی بڑھتی قیمتوں سے نجی طور پر مجھ پر کوئی خاص اثر نہیں پا ہے، کیونکہ میری فیملی پیاز-لہسن جیسی چیزوں کو خاص نہیں کرتی ہے۔‘‘


حالانکہ سیتارمن نے یہ بیان پارلیمنٹ میں مذاقیہ انداز میں دیا تھا، لیکن لوگوں کو ان کا یہ انداز پسند نہیں آیا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ پیاز کی بڑھتی قیمتوں سے عوام پریشان ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کے اراکین پارلیمنٹ ایوان میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ ایسے میں اراکین پارلیمنٹ کو خاموش کرنے کے لیے مذاقیہ انداز میں ’’میں لہسن-پیاز نہیں کھاتی‘‘ کہنا لوگوں کو کسی بھی طرح مناسب معلوم نہیں ہوتا۔

سیتارمن کے بیان کی سوشل میڈیا پر خوب تنقید ہو رہی ہے۔ ان کے اس بیان کو ٹرول کیا جا رہا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ’’میں بہت زیادہ پیاز-لہسن نہیں کھاتی، اس لیے فکر نہ کریں۔ میں ایسی فیملی سے تعلق رکھتی ہوں، جسے پیاز کی کوئی خاص پروا نہیں ہے۔‘‘ حالانکہ پارلیمنٹ میں اپنے جواب میں سیتارمن نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’حکومت نے ملک میں پیاز کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی قدم اٹھائے ہیں جن میں اس کی ذخیرہ اندوزی سے جڑے بنیادی ایشوز کا حل نکالنے کے تراکیب بھی شامل ہیں۔‘‘


مالی سال 20-2019 کے لیے الاٹمنٹ سے متعلق ضمنی طلب کے پہلے بیچ پر لوک سبھا میں ہوئی بحث کا جواب دیتے ہوئے وزیر مالیات نے کہا کہ ’’پیاز کی ذخیرہ اندوزی سے کچھ بنیادی ایشوز جڑے ہیں اور حکومت اس کا نمٹارا کرنے کے لیے قدم اٹھا رہی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ زراعت کے رقبے میں کمی آئی ہے اور پروڈکشن بھی گراوٹ درج کی گئی ہے لیکن حکومت پروڈکشن کو فروغ دینے کے لیے قدم اٹھا رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 05 Dec 2019, 9:49 AM