سی اے اے کا ایک سال: عدالت عظمیٰ میں 200 سے زیادہ عرضیاں سماعت کی منتظر

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سیاسی جماعتوں، ارکان پارلیمنٹ، مذہبی تنظیموں، سول سوسائٹی گروپوں، طلبا تنظیموں، ریٹائرڈ افسر شاہوں، وکلا اور سماجی کارکنان نے عرضیاں داخل کی تھیں، جو تاحال زیر التوا ہیں

سپریم کورٹ آف انڈیا - فائل تصویر / Getty Images
سپریم کورٹ آف انڈیا - فائل تصویر / Getty Images
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: ایک سال پہلے جب شہریت ترمیمی (سی اے اے) قانون کو پارلیمنٹ سے منظور کرایا گیا تھا تو اس کے خلاف ملک بھر میں کئی مہینے تک احتجاج و مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ اس متنازعہ قانون کے خلاف متعدد عرضیاں سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں، جو آج بھی زیر التوا ہیں۔

متنازعہ شہریت قانون کے خلاف جولائی 2020 کے درمیان 206 عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔ ان میں مرکز کے قانون کے خلاف ہائی کورٹ میں دائر عرضیوں کو سپریم کورٹ میں منتقل کرنے کی کئی عرضیاں بھی شامل ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سیاسی جماعتوں، ارکان پارلیمنٹ، مذہبی تنظیموں، سول سوسائٹی گروپوں، طلبا تنظیموں، ریٹائرڈ افسر شاہوں، وکلا اور سماجی کارکنان نے عرضیاں داخل کی تھیں۔

سپریم کورٹ نے 22 جنوری 2019 میں ہدایت دی تھی کہ آسام اور تریپورہ کے لوگوں اور فریقین کی طرف سے دائر معاملوں کو دیگر فریقین کی طرف سے دائر معاملوں سے علیحدہ سنا جا سکتا ہے۔ ایسا اس لئے کیا گیا کیونکہ ان کے دلائل میں اٹھائے گئے ایشوز علیحدہ ہیں۔

آسام اور تریپورہ کی عرضیوں میں دلیل دی گئی تھی کہ 2014 تک ہندوستان میں داخل ہونے والے افراد کے لئے شہریت کی توسیع آسام معاہدہ (آسام اکورڈ) کے التزامات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ان عرضیوں کے مطابق سی اے اے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتا ہے اور شمال مشرقی ریاستوں کو بنگلہ دیشی مہاجرین کو قبول کرنے پر مجبور کرے گا۔


دوسری طرف شمال مشرقی ریاستوں کے باہر پارٹیوں اور گروپوں اور کی طرف سے دائر کی گئی عرضیوں کے ذریعے قانون کو مذہبی تعصب کی بنیاد پر چیلنج کیا گیا، چونکہ کچھ خصوصی ممالک سے ہندوستان میں داخل ہونے والے مخصوص طبقات کے لوگوں کے لئے شہریت کا خصوصی حق فراہم کرتا ہے۔

مارچ میں مرکز نے تمام دلائل کے لئے ایک ابتدائی جواب داخل کیا اور کہا کہ سی اے اے ہندوستانی شہریوں کی شہرت کو متاثر نہیں کرے گا اور غیر ملکی شہریوں کی طرف سے ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کے بعد کے موجودہ عمل کو بھی متاثر نہیں کرے گا۔ حکومت نے یہ بھی دلیل دی کہ چونکہ سی اے اے کو خارجہ پالیسی کے طور پر منظور کیا گیا ہے، لیذا اس کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔

فروری میں ملک کی عدالت عظمیٰ نے سی اے اے کے اطلاق پر اسٹے لگانے سے انکار کر دیا، تاہم حکومت نے اس وقت تک اس قانون کو لاگو کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا۔ قانون کو نافذ کرنے کے لئے مرکز کو اگلا قدم اٹھانا ہے، چونکہ قانون کے تحت ضوابط کو حتمی شکل نہیں دی گئی ہے۔


معاملہ میں 5 مارچ کو جب فوری سماعت کی گزارش کی گئی تو چیف جسٹس کی سربراہی والی بنچ نے عندیہ دیا کہ عرضیوں میں اٹھائے گئے نکات کو 5 ججوں کی آئینی بنچ کی طرف سے سنا جائے گا۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڑے نے یہ بھی دیکھا کہ چونکہ 9 ججوں کی بنچ سبریمالا معاملہ کی سماعت کر رہی ہے، لہذا سی اے اے سے متعلق معاملوں کی سماعت 9 ججوں کی بنچ کا معاملہ ختم ہونے بعد کی جائے گی۔

حالانکہ سبریمالا معاملہ کی سماعت فروری-مارچ میں کچھ ججوں کے بیمار پڑنے سے متاثر ہو گئی۔ اس کے بعد 25 مارچ سے کورونا کے سبب نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن ے بعد سے عدالت کا کام ویڈٖیو کانفرنس کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ عرضی گزاروں میں سے کچھ کی نمائندگی کر رہی ایڈوکیٹ مالویکا تریویدی کا کہنا ہے کہ سی اے اے سے متعلق عرضیوں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے سماعت کرنا عملی طور پر ناممکن ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔