یک روزہ ’آل انڈیا قبائلی کنونشن‘ کا انعقاد، آل انڈیا ٹرائبل فورم کی 15 رکنی کمیٹی تشکیل
یک روزہ ’آل انڈیا قبائلی کنونشن‘ میں قبائلی زبانوں اور ثقافت کی ترویج کو یقینی بنانے اور قبائلی تاریخ کو سنجونے کے لیے اکیڈمی بنانے سے متعلق ایک نئی قبائلی پالیسی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا۔
21 مئی کو یک روزہ آل انڈیا ٹرائبل کنونشن کا آغاز اس اپیل کے ساتھ ہوا کہ ایک نئی قبائلی پالیسی کی تشکیل کے لیے جدوجہد کیا جائے گا تاکہ قبائلی زبانوں اور ثقافت کی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ اپیل تقریب میں بطور مہمان خصوصی شریک معروف قبائلی مصنف اور کارکن ڈاکٹر وساوی کیرو نے کی۔ جھارکھنڈ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر وساوی نے اپنے خطاب کے دوران ’ٹرائبل ہسٹری اکیڈمی‘ کے قیام کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا اور ساتھ ہی روایتی قبائلی ادویات، کھانوں اور دیگر علمی پہلوؤں کو ظاہر کیا۔
اپنے خطاب کے دوران ڈاکٹر وساوی نے زور دے کر کہا کہ قبائلیوں کو اپنے حقوق کے لیے منظم لڑائی لڑنی چاہیے۔ انھوں نے بہت سے ایسے غیر قبائلیوں کا بھی تذکرہ کیا جو قبائل کے حقیقی دوست ہیں اور ان کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر وساوی کے اس بیان پر تقریب میں موجود مندوبین نے خوب تالیاں بجائیں۔ تالیوں کے درمیان ڈاکٹر وساوی نے یہ بھی کہا کہ جہاں ایک طرف آر ایس ایس کی قیادت والی قوتیں قبائلیوں کو تقسیم کر رہی ہیں، وہیں دوسری طرف ’لال سلام‘ کا عہد کرنے والوں نے قبائلیوں کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔
اپنے 42 منٹ کے خطاب میں ڈاکٹر کیرو نے کہا کہ دنیا میں 700 ملین سے زیادہ ’سودیشی‘ (مقامی) لوگ ہیں جن میں سے 200 ملین ہندوستان میں رہتے ہیں۔ ان کی 7000 مقامی ثقافتوں کو نوآبادیاتی حکومت کے 75 سال بعد بھی نظر انداز کیا گیا اور دبایا گیا ہے۔ ہندوستان میں 750 سے زیادہ نسلی قبائل ہیں جن میں سے 75 سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ ان کی سماجی، ثقافتی، معاشی اور سیاسی صورت حال بہت فکر انگیز ہے۔
ڈاکٹر کیرو نے مزید کہا کہ ہندوستان میں قبائلیوں کو ریاستی پالیسی کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے جس کی بنیاد ترقی کی وجہ سے نقل مکانی، جنگلات اور قدرتی دولت کی لوٹ مار، زمین سے بے گانگی، فطرت کی انحطاط اور زبردستی ہندوؤں میں ضم کرنے کی کوششیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہندوستان میں 10 کروڑ لوگوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا ہے جن میں سے 80 فیصد قبائلی اور سودیشی ہیں۔ ڈاکٹر کیرو ساتھ ہی وضاحت کرتی ہیں کہ قبائلی لوگ سادہ اور اَن پڑھ ہیں۔ وہ ناخواندگی، پسماندگی، غذائی قلت و بیماری کا شکار ہیں۔ اگر حکومت چاہے تو ان سب سے آسانی سے نمٹا جا سکتا ہے۔ انھوں نے یہ کہتے ہوئے اپنی بات ختم کی کہ اگرچہ یہ اچھی بات ہے کہ ایک قبائلی خاتون کو ہندوستان کی صدر بننے کا موقع ملا ہے، لیکن جنگلات کے حقوق ابھی تک نافذ نہیں ہوئے اور قبائلیوں پر جبر جاری ہے۔
استقبالیہ کمیٹی کے اعزازی چیئرمین اور حکومت ہند کے سبکدوش سیکرٹری ای اے ایس سرما نے کہا کہ حکومت قبائلیوں کو بلڈوز کر رہی ہے، ان کے حقوق پر حملہ کر رہی ہے اور یہ لازمی ہونا چاہئے کہ ان سے متعلق تمام معاملات میں گرام سبھا، قبائلی کونسلوں کی اجازت لی جائے۔ لیکن یہ حکومت اتنی عوام دشمن ہے کہ نیشنل ایس ٹی کمیشن سے بھی مشورہ نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ صدر اور گورنروں کے پاس قبائلیوں کے حق میں اور مدد کرنے والے قانون بنانے کا آئینی اختیار ہے، لیکن وہ اس طاقت کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔
استقبالیہ کمیٹی کے صدر، سینئر صحافی رامانمورتی نے بتایا کہ کس طرح طویل عرصے سے جدوجہد جاری ہے لیکن ان مسائل پر لڑنے والی تمام قوتوں کو اکٹھا کرنے کے قابل ہونے میں ایک خلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خاص طور پر مرکزی حکومت قبائلیوں کی زمین بڑے کارپوریشنوں کو دینے کے لئے تمام جمہوری اصولوں کو فراموش کر رہی ہے۔ انہوں نے قبائلیوں کے آئینی حقوق کا مسئلہ اٹھانے اور پورے ملک میں قبائلی تحریکوں کو متحد کرنے کی کوشش کرنے کے لئے کنونشن کی ستائش کی۔
اس کنونشن کے اختتام پر 11 ریاستوں کے 600 سے زیادہ مندوبین نے متفقہ طور پر 15 رکنی فورم کمیٹی کے قیام کو منظوری دی۔ اس کمیٹی کو فورم کو وسعت دینے اور جدوجہد کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ اس کمیٹی میں 4 کنوینر (تلنگانہ کے مکتی ستیم، اڈیشہ کے کیدار سبا، جھارکھنڈ کے رامسائی سورین اور ایک آندھرا پردیش سے) شامل ہیں۔ ممبران میں مغربی بنگال سے سوپن ہنسدا اور سشیل لاکھڑا، بہار سے دھنجے اوراؤں، یوپی سے بھیم لال، دہلی سے چندن سورین، اڈیشہ سے کنیندرا جالیکا، تلنگانہ سے ساکرو اور سوورنپاکا ناگیشور راؤ اور آندھرا پردیش سے ملیش اور درگا شامل ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔