’جمہوریت میں احتجاج اور مظاہروں سے ہی اپنی بات منوائی جاسکتی ہے‘
انتخاب عالم نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف پورے ملک میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور ہر مذہب و ملت کے لوگ بڑی تعداد میں شامل ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے مرکزی حکومت کی نیند حرام ہوچکی ہے
نئی دہلی: آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے رکن، سینئر کانگریسی لیڈر اور شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کرنے والے انتخاب عالم نے شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف ہونے والے مظاہرہ میں تمام لوگوں کی شمولیت کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں احتجاج اور مظاہروں سے ہی اپنی بات منوائی جاسکتی ہے۔
انہو ں نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف پورے ملک میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور یہ خوش آئند پہلو ہے کہ اس میں ذات، پات، مذہب، مسلک، علاقائیت سے اوپر اٹھ کر اس میں بڑی تعداد میں لوگ شامل ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے مرکزی حکومت کی نیند حرام ہوچکی ہے اور اس کو سبوتاژ کرنے کے لئے وہ مختلف طریقے استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ حکومت نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو اس کے لئے سڑکوں پر اتار دیا ہے اور جو لوگ پرامن احتجاج کر رہے ہیں-
شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف مختلف مظاہروں میں شامل ہونے والے کانگریسی لیڈر انتخاب عالم نے یو این آئی اردو سروس سے بات چیت میں کہا کہ یہ کالا قانون صرف مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں ہے بلکہ درج فہرست ذات و قبائل، بنجارہ اور کمزور طبقے کے خلاف ہے اور اس کے علاوہ ہر اس انسان کے خلاف ہے جس کے پاس کوئی زمین و جائداد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سیاہ قانون کو حکومت کو واپس لینے پر مجبور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ احتجاج و مظاہروں کا سلسلہ مسلسل جاری رہنا چاہیے اور امن و امان کے ساتھ لوگ بڑی تعداد میں اس میں شرکت کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اس قانون پر روک لگانے کے لئے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کی ہے جس میں اس قانون پر روک لگانے کی اپیل کی گئی ہے۔ جس کی اگلی سماعت 22 جنوری ہے۔ انتخاب عالم نے کہا کہ میرے علاوہ نعیم الیاس، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، امیر نسیم، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور شاہد انور (ایڈووکٹ آن ریکارڈ) سپریم کورٹ آف انڈیا اپنی دلیل پیش کریں گے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی کی سماعت کے دوران چار درجن سے زائد وکلاء کورٹ میں موجود تھے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے شہریت (ترمیمی) ایکٹ 2019 کے خلاف درخواستوں پر مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا ہے، اگرچہ اس نے اس قانون پر روک لگانے سے انکار کر دیا۔ معاملہ کی اگلی سماعت 22 جنوری کو ہوگی۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت کی ڈویڑن بنچ نے شہریت (ترمیمی) ایکٹ 2019 کو چیلنج کرنے والی کم از کم 59 درخواستوں کی سماعت کے دوران مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کرکے جواب مانگا ہے۔ کورٹ نے نوٹس کے جواب کے لئے جنوری 2020 کے دوسرے ہفتہ تک کا وقت دیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔