عالمی یوم اُردو کے موقع پر غالب اکیڈمی میں جلسہ تقسیم انعامات اور مذاکرہ کا انعقاد

اُردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین شہپر رسول نے کہا کہ میں ڈاکٹر سید احمد خاں اور ان کے رفقاء کو مبارکباد دیتا ہو جنہوں نے 27 سال قبل جو چراغ روشن کیا تھا اس کی روشنی سے اردو کی راہیں ہموار ہو رہی ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>تقریب میں موجود مہمانان</p></div>

تقریب میں موجود مہمانان

user

محمد تسلیم

نئی دہلی: سالہائے گزشتہ کی طرح امسال بھی 9 نومبر یعنی یوم پیدائش علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے موقع پر جلسہ تقسیم انعامات اور مذاکرہ بعنوان اُردو تعلیم کی اہمیت و افادیت کا انعقاد اُردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن اور یونائیٹڈ مسلم آف انڈیا کے اشتراک سے بستی حضرت نظام الدین میں واقع غالب اکیڈمی میں کیا گیا۔ اس تقریب کی صدارت ماہر اقبالیات پروفیسر عبد الحق، پروفیسر ایمریٹس دہلی یونیورسٹی نے کی، جبکہ نظامت کے فرائض صحافی محمد احمد نے بحسن و خوبی انجام دئیے۔ پروگرام میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے اُردو اکیڈمی دہلی کے وائس چیئرمین شہپر رسول اور ڈاکٹر ایس فاروق نے شرکت کی۔

تقریب کا آغاز حکیم مولانا مرتضی دہلوی کی تلاوتِ قرآنِ کریم سے ہوا۔ تقریب میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کو ان کی نمایاں خدمات کے اعتراف میں ایوارڈز سے نوازا گیا۔ اپنے صدارتی خطبہ میں پروفیسر عبدالحق نے کہا کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج ہم علامہ ڈاکٹر اقبال کے یوم پیدائش پر عالمی یوم اُردو منا رہے ہیں۔ علامہ اقبال کا وصف ہے کہ دنیا کی دوسری زبانوں میں اتنا بڑا شاعر، مفکر، دور اندیش پیدا نہیں ہوا۔ اقبال کی شاعری میں قوم کی تقدیر بدلنے کی وہ طاقت پوشیدہ ہے جو وقتاً فوقتاً ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اقبال کو لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، سے آگے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ علامہ اقبال ہماری زندگی اور ثقافت کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔ آج ہم جو بھی رسالہ، میگزین، اخبارات پر نظر ڈالتے ہیں اس میں ڈاکٹر علامہ اقبال کے اشعار نظر آ جاتے ہیں۔ آج اقبال پر 6 ہزار کتابیں لکھیں جا چکی ہیں اور 34 زبانوں میں ان کی کتابوں کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ تاہم جس کثرت سے آج علامہ اقبال کو پڑھا جاتا ہے کسی دوسرے شاعر کو نہیں پڑھا جاتا۔


پروفیسر عبدالحق نے شرکاء سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اپنے بچوں کو اُردو پڑھنا، لکھنا اور بولنا ضرور سکھائیں تبھی آپ اقبال کو اچھی طرح سمجھ پائیں گے۔ اُردو کے حوالے سے پروفیسر عبدالحق نے کہا کہ آج اُردو کیلئے ماحول بہت ساز گار ہے اور روزگار کے بھی نئے نئے مواقع مل رہے ہیں۔ اسی لئے اُردو طبقے کو مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ فخر محسوس کرنا چاہئے کہ ہم اس زبان سے تعلق رکھتے ہیں جس کے الفاظ جب بولے جاتے ہیں تو لوگ سن کر خوش ہوتے ہیں۔

عالمی یوم اردو کے تعلق سے بات کرتے ہوئے پروگرام کے روحِ رواں اور اُردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (یو ڈی او) کے قومی صدر ڈاکٹر سید احمد خاں نے کہا کہ آج سے 27 سال قبل ہم نے شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کے یوم پیدائش 9 نومبر کوعالمی یوم اُردو منانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس سے یہ فائدہ ہوا کہ آج پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی اُردو سے محبت کرنے والے افراد موجود ہیں وہ اپنے اپنے طور پر اُردو کی بزم سجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اُردو زبان کو بھلے ہی موجودہ دور میں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو، لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اُردو زبان نامساعد حالات میں بھی پھل پھول رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی یوم اُردو منانے سے ایک طرف لوگوں میں اُردو کو درپیش مسائل کو عوامی سطح پر لانے کیلئے مدد ملتی ہے اور دوسری طرف جو اُردو سے محبت کرتے ہیں اور اپنے اپنے فیلڈ میں اُردو کی جو خدمت کر رہے ہیں ان کے بارے میں بھی جاننے کا موقع ملتا ہے۔ علاوہ ازیں اس دوران وہ اُردو کی ترقی کیلئے اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے ہیں جو مستقبل کی حکمت عملی تیار کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم جہاں کہیں بھی رہیں ہمیں اُردو زبان کا استعمال کرنا چاہئے، یہی اُردو کی سب سے بڑی خدمت ہے۔


سینئر صحافی سہیل انجم نے اُردو کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان اسلامی زبان نہیں بلکہ یہ خالص ہندوستانی زبان اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کی زبان ہے۔ اُردو کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ متعدد مرکزی وزرا کو اپنی گفتگو میں زور پیدا کرنے کیلئے اسی زبان کے اشعار کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اُردو کی مٹھاس ہمیشہ قائم رہے گی اور اس کے چاہنے والوں کی تعداد کبھی کم نہیں ہوگی۔

اُردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں ڈاکٹر سید احمد خاں اور اُن کے رفقاء کو مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے 27 سال قبل جو چراغ روشن کیا تھا اس کی روشنی سے اُردو کی راہیں ہموار ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بچوں کو درس دیتا تھا تو دوسری زبانوں کے اکثر طلباء یہ کہتے تھے کہ سر ہمیں اُردو پڑھ کر کیا فائدہ ہوگا۔ میں جواب میں کہتا تھا کہ اُردو سیکھنے کے بعد آپ بات چیت کا ڈھنگ سیکھ جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو شخص اُردو سیکھ جاتا ہے وہ نہ صر ف اُردو بلکہ ہر زبان کے الفاظ کی ادائیگی پورے تلفظ کے ساتھ ادا کرے گا۔ اُردو زبان اور تہذیب صرف مسلمانوں کی نہیں ہے بلکہ وہ پورے ہندوستان کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اُردو کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن ہمیں اپنا بھی احتساب کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اُردو کی کتنی خدمات کر رہے ہیں۔ آج اگر اُردو کو فروغ دینا ہے تو ہمیں اُردو کلچر کو بڑھاوا دینا ہوگا۔


اُردو کے مایہ ناز صحافی معصوم مراد آبادی نے کہا کہ ہر سال 9 نومبر کو عالمی یوم اردو کے موقع پر دہلی میں ایک پروقار تقریب منعقد کی جاتی ہے جس کے روح رواں ڈاکٹر سید احمد خاں ہیں۔ ڈاکٹر سید نے 27 سال قبل عالمی یوم اُردو منانے کی جو شروعات کی تھی اس کے نتیجہ میں آج پورے برصغیر میں اُردو طبقہ اُردو ڈے مناتا ہے۔ معصوم مراد آبادی نے کہا کہ آج اُردو کی سب سے بری حالت ریاست اُتر پردیش میں ہے جہاں اُردو بستر مرگ پر پڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے اُتر پردیش کے ضمنی الیکشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب میں نے الیکشن کے امیدواروں کے نام غلط تحریر ہوئے دیکھے تو مجھے بہت دکھ ہوا۔ جب تک ہم اُردو زبان میں لکھی ہوئی تحریر کو صیحح نہیں کروائیں گے تب تک اُردو کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ جو قوم اپنی زبان کی حفاظت نہیں کرتی وہ اپنی تہذیب بھی نہیں بچا پاتی۔ اُردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ مکمل تہذیب ہے، اسی لئے ہمیں اس زبان کو فروغ دینے کیلئے اپنی اپنی ذمہ داریاں طے کرنی چاہئیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔