وزیر اعظم مودی کے دورۂ بہار کے موقع پر کانگریس نے کیے وزیر اعظم سے 3 سوالات، یاد دلائے 3 وعدے
کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے وزیر اعظم مودی سے ان کے بہار سے متعلق کیے گیے ان کے 3 وعدوں کے حوالے سے تین سوالات کرتے ہوئے ان کی ویڈیو بھی پوسٹ کی ہے۔
لوک سبھا کی انتخابی مہم کے دوران کانگریس پارٹی کی جانب سے وزیر اعظم مودی سے مسلسل سوالات کیے جار ہے ہیں۔ اسی ضمن میں کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر آج ایک بار پھر وزیر اعظم مودی سے سوالات کیے ہیں۔ اپنے سوالات کے ساتھ ہی انہوں نے وزیر اعظم کے وعدوں کو بھی پیش کیا ہے۔
کانگریس کے جنرل سکریٹری نے ’آج وزیر اعظم بہار میں ہیں، ان سے آج کے ہمارے سوالات‘ کے عنوان سے اپنی پوسٹ میں وزیر اعظم سے 3 سوالات پوچھے ہیں۔ انہوں نے پوچھا ہے کہ ’’ 1. وزیر اعظم نے اپنے وعدے کے مطابق بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ کیوں نہیں دیا؟ 2. کوسی ندی سے آنے والے سیلاب کی صورت میں ہر سال ہونے والی تباہی پر مودی حکومت کب توجہ دے گی؟ اور 3. وزیر اعظم نے جن ہوائی اڈوں کا وعدہ کیا تھا ان کا کیا ہوا؟‘‘
جے رام رمیش نے ان سوالات کے بعد وزیر اعظم کے 3 وعدوں کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے ’’یہ ہیں ان کے جملوں کی تفصیلات۔‘‘ لکھا ہے۔ اس میں جے رام رمیش نے پہلے وعدے کے تحت پوچھا ہے کہ ’’ مرکز میں 10 سال اور بہار میں تقریباً 15 سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی بی جے پی حکومت نے ریاست کو خصوصی درجہ کیوں نہیں دیا؟ مرکز کی اپنی کثیر جہتی غربت انڈیکس (MPI) رپورٹ کے مطابق، بہار ہندوستان کی غریب ترین ریاست ہے۔ ریاست کی 52 فیصد آبادی کو صحت اور تعلیم کی مناسب سہولیات میسر نہیں۔ 2013 میں رگھورام راجن کمیٹی نے ریاست کی معاشی پسماندگی کے پیشِ نظر فنڈز کی منتقلی کے لیے ایک نئے طریقہ کار کی سفارش کی تھی جو ایس سی ایس کے بجائے کثیر جہتی انڈیکس پر مبنی ہو۔ 2014 میں جب مودی جی وزیر اعظم کے امیدوار تھے تو انہوں نے بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے کا کئی بار وعدہ کیا تھا۔ دس سال بعد بھی مودی حکومت کس چیز کا انتظار کر رہی ہے؟ وزیر اعظم بہار کے لوگوں کو کیوں بھول گئے؟‘‘
وزیر اعظم کے دوسرے وعدے کا حوالہ دیتے ہوئے جے رام رمیش نے لکھا ہے کہ ’’ہر مانسون میں کوسی ندی سیلاب کے ذریعے تباہی لاتی ہے۔ آس پاس کے علاقے مکمل طور پر تباہ ہو جاتے ہیں۔ کوسی کے سیلاب سے لاکھوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ فصلیں ہر سال برباد ہو جاتی ہیں اور لوگوں کو مہینوں تک بے گھر رہنا پڑتا ہے۔ ڈبل انجن حکومت باندھوں کی تعمیر و مرمت میں لگی رہتی ہے تاکہ اگلے سیلاب کے دوران وہ پھر سے بہہ جائیں۔ کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ مقامی باشندوں نے اس کا موازنہ ’سونے کے انڈے دینے والی مرغی‘ سے کیا ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ بی جے پی کے پسندیدہ ٹھیکیداروں کو ہر بار باندھوں کی تعمیر نو کے ٹھیکے ملتے ہیں۔ بی جے پی حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی کوشش کیے بغیر بیراج کے دروازے کھولنے کے لیے نیپال کو مورد الزام ٹھہرانے کو ترجیح دیتی ہے۔ مودی حکومت لاکھوں سیلاب متاثرین کی حالت زار کو کیوں نظر انداز کر رہی ہے؟ کیا متھیلانچل اور کوسی میں لوگوں کی حالت زار بی جے پی کے لیے منافع کمانے کا ایک اور موقع بن کر رہ گیا ہے؟‘‘
اپنی پوسٹ میں وزیر اعظم مودی کے تیسرے وعدے کے حوالے سے کانگریس کے جنرل سکریٹری نے لکھا ہے کہ ’’پی ایم مودی نے 18 اگست 2015 کو پورنیا میں ہوائی اڈے کا وعدہ کیا تھا۔ چھ سال گزر چکے ہیں، اس دوران نتیش کمار تین بار یو ٹرن لے چکے ہیں، پھر بھی ان کی حکومت نے وعدہ پورا نہیں کیا۔ مظفر پور میں مودی حکومت نے دیوالی 2023 تک مکمل طور پر آپریشنل ہوائی اڈے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن آج ہوائی اڈے پر ایک بھی فلائٹ نہیں اترتی ہے۔ بی جے پی اور جے ڈی یو کے کئی سالوں کے خالی وعدوں کے بعد بھاگلپور میں انتظامیہ نے بڑی مشکل سے ہوائی اڈے کی صرف خانہ پری کی شروعات کی ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر توجہ دینے کے بلند بانگ دعوے کرنے والی حکومت نے بہار کو کیوں نظر انداز کیا؟ ایئرپورٹ کے یہ تینوں منصوبے پچھلے دس سالوں سے کیوں نظر انداز کیے گئے؟‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔