عمر خالد نے تقریر میں غلط زبان کا استعمال کیا، لیکن اسے دہشت گردانہ عمل نہیں ٹھہرایا جا سکتا: دہلی ہائی کورٹ

جسٹس سدھارتھ مردل اور جسٹس رجنیش بھٹناگر کی بنچ نے عمر خالد کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ’’تقریر کی زبان کا غلط ہونا، اسے دہشت گردانہ عمل نہیں بناتا۔‘‘

عمر خالد
عمر خالد
user

قومی آواز بیورو

جے این یو کے سابق طالب علم عمر خالد معاملے میں آج دہلی ہائی کورٹ میں اہم سماعت ہوئی۔ اس دوران عمر خالد کے ذریعہ مہاراشٹر کے امراوتی میں کی گئی تقریر کو عدالت نے زبان کے لحاظ سخت قرار دیا۔ حالانکہ عدالت نے ساتھ ہی کہا کہ غلط زبان استعمال کرنے یا سخت لہجہ اختیار کرنے کو دہشت گردانہ عمل نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ عمر خالد کو فروری 2020 میں دہلی میں فساد بھڑکانے کی مبینہ سازش کے پیش نظر یو اے پی اے قانون کے تحت درج معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے اپنی ضمانت کے لیے عمر خالد کئی عرضیاں داخل کر چکے ہیں، لیکن انھیں ضمانت نہیں ملی ہے۔ آج دہلی ہائی کورٹ میں اسی تعلق سے سماعت ہو رہی تھی۔ عمر خالد نے ذیلی عدالت کے ذریعہ 24 مارچ کو ضمانت عرضی خارج کیے جانے کے فیصلے کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔


جسٹس سدھارتھ مردل اور جسٹس رجنیش بھٹناگر کی بنچ نے عمر خالد کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ’’تقریر کی زبان کا غلط ہونا، اسے دہشت گردانہ عمل نہیں بناتا۔ ہم اسے اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اگر استغاثہ کا معاملہ اس بات پر مبنی ہے کہ تقریر کس قدر جارحانہ تھی، تو یہ اپنے آپ میں جرم نہیں ہوگا۔ ہم انھیں (استغاثہ) ایک موقع دیں گے۔‘‘ بنچ نے کہا کہ تقریر جارحانہ اور قابل اعتراض تھی، اور اسے ہتک عزتی تصور کیا جا سکتا ہے، لیکن دہشت گردانہ سرگرمی نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

عدالت نے عمر خالد کے وکیل کے ذریعہ پیش دلائل سننے کے بعد اس معاملے میں آئندہ سماعت 4 جولائی کے لیے فہرست بند کر دی ہے۔ آج کی سماعت کے دوران عمر خالد کے ذریعہ 17 فروری 2020 کو امراوتی میں کی گئی تقریر کی تفصیل ان کے وکیل نے عدالت کو بتائی۔ اس دوران وکیل نے گواہوں کے ذریعہ دیے گئے بیانات کو بھی پڑھ کر بنچ کو سنایا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔