ماروتی سوزوکی نے سیتارمن کو ٹھہرایا غلط، کہا ’آٹو سیکٹر میں مندی کے لیے اولا-ابیر ذمہ دار نہیں‘
نرملا سیتارمن نے کہا تھا کہ زیادہ تر لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے جو اب ماہانہ قسطوں کی ادائیگی کرتے ہوئے ایک کار خریدنے کی جگہ اولا اور اوبیر جیسی ٹیکسی سروسز سے فائدہ اٹھانا پسند کرتے ہیں۔
آٹو سیکٹر اس وقت زبردست بحرانی حالات کا شکار ہے۔ مرکزی وزیر نرملا سیتارمن نے اس کے لیے اولا اور ابیر ٹیکسی سروس کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا لیکن ماروتی سوزکی نے ان کے بیان کو درست ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی کارساز کمپنی ماروتی سوزوکی کا کہنا ہے کہ یوتھ آبادی میں اولا اور ابیر سروسز کا استعمال بڑھا ضرور ہے لیکن یہ معاشی بحران کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے۔ کمپنی کے ایک اعلیٰ افسر نے یہ بھی کہا کہ معاشی بحران کی وجہ تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تحقیق ہو اور بنیادی چیزوں کا جائزہ لیا جائے۔
ماروتی سوزوکی انڈیا (ایم ایس آئی) کے مارکیٹنگ اور سیلس محکمہ کے کارگزار ڈائریکٹر ششانک شریواستو نے پی ٹی آئی سے بات چیت کے دوران بتایا کہ ہندوستان میں کار خریدنے کو لے کر سوچ میں اب بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور لوگ اپنی خواہش کے مطابق کار کی خریداری کرتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ وزیر مالیات نرملا سیتارمن نے منگل کو کہا تھا کہ زیادہ تر لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے جو اب ماہانہ قسطوں کی ادائیگی کرتے ہوئے ایک کار خریدنے کی جگہ اولا اور اوبیر جیسی ٹیکسی سروسز سے فائدہ اٹھانا پسند کرتے ہیں اور یہ آٹو وموبائل سیکٹر میں مندی کے کئی اسباب میں سے ایک ہے۔ اس تعلق سے ششانک شریواستو نے کہا کہ ’’موجودہ بحران کے پیچھے اولا اور اوبیر جیسی خدمات کا ہونا کوئی بڑی وجہ نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس طرح کے نتائج پر پہنچنے سے پہلے ہمیں مزید غور کرنا ہوگا اور تحقیق کرنی ہوگی۔‘‘انھوں نے مزید کہا کہ ’’اولا اور اوبیر جیسی خدمات گزشتہ 7-6 سالوں میں سامنے آئی ہیں۔ اسی مدت میں آٹو انڈسٹری نے کچھ بہترین تجربات بھی حاصل کیے۔‘‘
یہاں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر گزشتہ کچھ مہینوں میں ایسا کیا ہوا کہ آٹو سیکٹر کی حالت دگر گوں ہوتی چلی گئی؟ شریواستو کا کہنا ہے کہ ’’مجھے نہیں لگتا کہ ایسا صرف اولا اور ابیر کی وجہ سے ہوا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ مندی سے نمٹنے کے لیے گزشتہ ماہ بتائے گئے حکومت کے طریقہ کار کافی نہیں ہیں، اور یہ طریقے انڈسٹری کے لیے لانگ ٹائم میں مددگار ہو سکتے ہیں، کیونکہ یہ بنیادی طور پر گاہکوں کی سوچ پر دھیان دیتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔