لوک سبھا انتخاب 2019: کیا اس بار بڑھے گی مسلم اراکین پارلیمنٹ کی تعداد!
لوک سبھا انتخاب 2019 کی سرگرمی تیز ہو گئی ہے۔ ایسے میں یہ بات موضوع بحث ہے کہ لوک سبھا میں مسلم اراکین پارلیمنٹ کی گھٹتی نمائندگی میں کیا اس بار کوئی فرق دیکھنے کو ملے گا۔
آئندہ لوک سبھا انتخابات میں یہ بات دیکھنے والی ہوگی کہ کتنے مسلم لیڈروں کو انتخابی میدان میں اتارا جائے گا اور ان میں سے کتنے فتحیاب ہوں گے۔ اگر 2014 لوک سبھا انتخابات کے نتائج پر نظر ڈالیں تو ایسا کم ہی لگتا ہے کہ 2019 میں کچھ زیادہ بہتری دیکھنے کو ملے گی۔ دراصل 2014 میں صرف 23 مسلم لیڈران خصوصاً 6 ریاستوں یعنی مغربی بنگال (8)، بہار (4)، کیرالہ (3)، جموں و کشمیر (3) آسام (2) اور آندھرا پردیش (1) سے منتخب ہوئے تھے۔ مرکز کے ماتحت ریاست لکشدیپ سے بھی ایک مسلم رکن پارلیمنٹ منتخب ہوا تھا۔
اس پورے منظرنامے پر ایک وسیع نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 2014 میں 53 مسلم لیڈران دوسرے مقام پر رہے تھے۔ لداخ سے ایک آزاد امیدوار کی شکل میں میدان میں اترے غلام رضا بھی بی جے پی کے تھپستان سے محض 36 ووٹوں سے ہار گئے تھے۔ کانگریس کے حمیداللہ سعید لکشدیپ سیٹ سے محمد فیضل سے صرف 1535 ووٹوں سے ہارے تھے۔ سی پی ایم کی جانب سے کھڑے اے این شمشیر کیرالہ کی وڈاکارا سیٹ سے کانگریس کے ملاپلی رام چندن سے صرف 3306 ووٹوں سے ہار گئے تھے اور سماجوادی پارٹی کے ڈاکٹر شفیق الرحمن برق سنبھل سیٹ سے بی جے پی کے ستیہ پال سنگھ سے 5174 ووٹوں سے ہار گئے تھے۔ ان سیٹوں کو چھوڑ کر سبھی مسلم لیڈر کی شکست کا فرق زیادہ تھا۔
گزشتہ لوک سبھا انتخاب کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ صرف 9 مسلم لیڈر ہی مسلم لیڈروں سے ہارے تھے جب کہ بقیہ سبھی سیٹوں پر غیر مسلم امیدوار فتحیاب ہوئے تھے۔ اتر پردیش میں سب سے زیادہ مسلم امیدوار (19) دوسرے مقام پر رہے تھے جس کے بعد مغربی بنگال سے 9 اور بہار سے پانچ مسلم امیدوار دوسرے مقام پر رہے۔ سی پی ایم کے محمد سلیم نے مغربی بنگال کی رائے گنج سیٹ صرف 1356 ووٹوں سے جیتی تھی۔ مغربی بنگال کے آرام باغ سے 346845 ووٹوں کے فرق سے جیتنے والی ترنمول کانگریس کی اَپروپا پودار (آفرین علی) سب سے زیادہ فرق سے جیتنے والی مسلم فاتح تھیں۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک کی مسلم آبادی 17.2 کروڑ ہے لیکن لوک سبھا میں ان کی نمائندگی 10 فیصد سے بھی کم ہے۔ لوک سبھا میں سب سے زیادہ مسلم رکن 1980 میں تھے جب 49 لیڈر ایوان کے لیے منتخب ہوئے تھے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔