نوح تشدد: مسلم وکیلوں نے جان پر کھیل کر بچائی جج انجلی جین اور ان کی معصوم بچی کی جان

بچانے والے وکلاء کا کہنا تھا کہ عجیب بات یہ ہے کہ تشدد پر آمادہ لوگ باہری تھے اور وہ ان میں سے کسی کو بھی نہیں پہچانتے، نہ ہی ہجوم میں شامل لوگ ان وکلا کو پہچانتے تھے

<div class="paragraphs"><p>نوح تشدد کے دوان نذر آتش کی گئی گاڑیاں / آئی اے این ایس</p></div>

نوح تشدد کے دوان نذر آتش کی گئی گاڑیاں / آئی اے این ایس

user

عمران خان

نوح: ہریانہ کے نوح میں وی ایچ پی کی ’برج منڈل جل ابھیشیک یاترا‘ کے دوران ہجوم کے بے قابو ہو جانے، لوگوں پر حملہ کرنے اور گاڑیوں کو نذر آتش کرنے کے کئی واقعات رونما ہوئے۔ اسی دوران نوح کی ایڈیشنل چیف جوڈیشل مجسٹریٹ (اے سی جے ایم) انجلی جین کی گاڑی پر بھی حملہ کیا گیا۔ وکلا کے ایک گروپ نے اپنی جان پر کھیل کر انہیں وہاں سے بحفاظت نکالا، تاہم ہجوم نے جج انجلی جین کی گاڑی نذر آتش کر دی۔

نوح میں وکالت کرنے والے محمد مجیب اور رمضان چودھری وکلا کے اس گروپ کا حصہ تھے جنہوں نے جج صاحبہ کو تشدد زدہ علاقہ سے بحفاظت باہر نکالا۔ دونوں کا ہی کہنا تھا کہ عجیب بات یہ ہے کہ تشدد پر آمادہ لوگ باہری تھے اور وہ ان میں سے کسی کو بھی نہیں پہچانتے، نہ ہی ہجوم میں شامل لوگ ان وکلا کو پہچانتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میوات مسلم کثریتی علاقہ ہے اور یہاں اگر جج صاحبہ کو کچھ ہو جاتا تو علاقہ کی بڑی بدنامی ہوتی، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر جج انجلی جین کی جان بچائی۔


ایڈوکیٹ محمد مجیب، جو نوح میں گزشتہ تقریباً 30 سالوں سے وکالت کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ’’سیشن جج کی طرف سے کال آئی تھی کہ اے سی جے ایم انجلی جین تشدد زدہ علاقہ میں پھنس گئی ہیں انہیں کسی طرح سے وہاں سے باہر نکالیں۔ ہم کئی وکلا کا گروپ، جس میں رمضان چودھری، طارق مجیب، شعیب مجیب، محمد طاہر، ذاکر حسین، ہارون خان، پنڈت دنیش اور سوم دت شرما وغیرہ شامل تھے، موقع کی طرف روانہ ہوئے۔ جج انجلی جین نلہڑ میں واقع اسپتال میں اپنی 3 سالہ بچی کا طبی معائنہ کرانے کے بعد لوٹ رہی تھیں۔ پتھراؤ اور آگزنی کے پیش نظر انہوں نے پونہانہ بس اسٹینڈ پر واقع ورک شاپ میں پناہ لی ہوئی تھی۔ ہماری گاڑی کو بھی بھیڑ نے گھیر لیا تھا اور بھیڑ میں شامل نوجوان ہمیں نہیں پہنچان رہے تھے۔‘‘

وکلا کا گروپ کسی طرح جج انجلی تک پہنچا اور انہیں ورک شاپ سے باہر نکالا۔ انہوں نے بتایا کہ وکلا نے جج انجلی جین سے کہا ’’گھبرائیں نہیں یہ علاقہ ہندو مسلمان یکجہتی کے لیے جانا جاتا ہے اور ہم آپ کو کچھ نہیں ہونے دیں گے۔ بھیڑ کو ہم تک پہنچنے کے لیے ہماری لاشوں سے گزرنا ہوگا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد وہ انجلی جین اور ان کی بچی کو اپنے گھر لے گئے اور دو گھنٹے تک انہیں اپنے یہاں پر رکھا۔


وہیں، ایڈوکیٹ رمضان چودھری نے کہا کہ جب وہ کار سے جا رہے تھے توبھیڑ نے انہیں روکا تھا۔ یہاں تک کہ کار پر لاٹھی ڈنڈے بھی چلائے۔ ہم نے انہیں سمجھایا اور حالات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ علاقہ میوات میں کافی وقت سے فسادات بھڑکانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ آخرکار تخریب کاری قوتیں اپنے منصوبوں میں کامیاب ہو گئیں۔

انہوں نے کہا کہ یاترا سے قبل مونو مانیسر اور بٹو بجرنگی جیسے لوگوں نے سوشل میڈیا پر ویڈیو ڈال کر لوگوں کو مشتعل کیا، انہوں نے بھڑکایا اور میوات کے چند لوگ بھڑک گئے، بس اسی وجہ سے فسادات برپا ہو گئے۔ پولیس کی یکطرفہ کارروائی کے سوال پر رمضان چودھری نے کہا کہ پولیس بڑے پیمانے پر چھاپہ مار رہی ہے اور کئی بے قصوروں کو بھی گرفتار کیا جا رہا ہے، کچھ کو پوچھ گچھ کے بعد چھوڑا بھی جا رہا ہے۔ علاقہ کے معززین انتظامیہ سے درخواست کر رہے ہیں کہ جو قصوروار ہو اسی پر کارروائی کی جائے اور بے قصوروں کو پریشان نہ کیا جائے۔


خیال رہے کہ نوح سٹی پولیس اسٹیشن میں درج کی گئی ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ حملہ آوروں نے پیر کو اے سی جے ایم انجلی جین کی گاڑی پر پتھراؤ کیا اور فائرنگ کی جس کی وجہ سے انہیں اور ان کی بیٹی کو جان بچا کر بھاگنا پڑا۔ جج، ان کی بیٹی اور عملے کو نوح کے پونہانہ بس اسٹینڈ پر واقع ایک ورکشاپ میں پناہ لینی پڑی، جہاں سے بعد میں کچھ وکلا نے انہیں بچایا۔

نوح اے سی جے ایم کی عدالت میں ٹیک چند کی شکایت پر نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے، جو عدالت میں ہی کام کرتے ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق اے سی جے ایم، ان کی تین سالہ بیٹی اور محافظ سیارام پیر کو دوپہر ایک بجے کے قریب اپنی وولکس ویگن کار میں دوا لینے کے لیے نلہڑ کے ایس کے ایم میڈیکل کالج گئے تھے۔ دوپہر دو بجے کے قریب، جب وہ میڈیکل کالج سے واپس آر ہی تھیں تو دہلی الور روڈ پر پونہانہ اسٹینڈ کے قریب تقریباً 100-150 فسادیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔


ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’’فسادی ان پر پتھراؤ کر رہے تھے۔ کچھ پتھر گاڑی کے پچھلے شیشے پر لگے اور فسادیوں نے علاقے میں فائرنگ شروع کر دی۔ چاروں گاڑی سڑک پر چھوڑ کر جان بچانے کے لیے بھاگے۔ ہم بس اسٹینڈ میں ایک ورکشاپ میں چھپ گئے۔ بعد میں کچھ وکلا نے ہمیں بچایا۔ اگلے دن جب گاڑی دیکھی تو معلوم ہوا کہ اسے فسادیوں نے اسے جلا دیا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔