’’اب پتہ چلا سرکار صرف امیروں کی ہے‘‘

بابو موچی/تصویر قومی آواز
بابو موچی/تصویر قومی آواز
user

آس محمد کیف

قصبہ میرانپور (ضلع مظفر نگر)میں پولس اسٹیشن کے سامنے دلتوں کی ایک بڑی بستی ہے اسے محلہ پچھالا کہتے ہیں۔ محلہ میں داخل ہونے سے پہلے امبیڈکر کے مجسمہ کے برابر میں دلت ذات کےبابو جوتے پالش کرنے اور کٹے پھٹے جوتوں کی مرمت کرنے کا کام کرتے ہیں ۔ پچھلے 25 برسوں سے میں انہیں مسلسل اسی حالت میں دیکھ رہا ہوں، ان کی معاشی حالت میں کوئی بہتری نہیں ہوئی۔ ان کے کپڑے بے حد گندے اور پھٹے ہوتے ہیں اور دکان کے نام پر ان کے پاس تھوڑی سی جگہ ہے جس پر انہوں نے چھپر ڈلا ہوا ہے ، اس میں ایک صندوق رکھا ہوا ہے جس میں چپل، جوتے رکھتے ہیں ،جنہیں لوگ مرمت کے لئے چھوڑ جاتے ہیں اور سازو سامان کے نام پر ان کے پاس جوتے مرمت کرنے کا ایک اسٹینڈ ، تین چار پالش کے ڈبے ، دھاگا ، چمڑے کی چھوٹی چھوٹی کترنیں اور تیز دھار والے ایک یا دو اوزار ہیں، بس یہی ان کی کل پراپرٹی ہے ،جس سے وہ دووقت کی روٹی کا بند وبست کرتے ہیں۔

بابو کے پاس بہت کم وسائل ہونے کے باوجود وہ مستقل کام پر لگے رہتے ہیں ۔ میں نے انہیں محض ہولی کی چھٹی کرتے دیکھا ہے ۔ پڑوسیوں کا کہنا ہے ’’اس دن بابو دباکر دارو پیتا ہے اور سو جاتا ہے‘‘۔ بابو کی عمر 60 سال ہو چکی ہے، ایک بیٹا ہے اور وہ بھی اپنی فیملی میں مصروف ہے۔ بقول بابو وہ 5 سال کے تھے جب سے اس کام میں لگے ہیں یعنی کہ انہیں یہی کام کرتے ہوئے 55 برس گزر چکے ہیں۔ 55 سالوں سے سال میں صرف ہولی کی ایک چھٹی کرنے والا انسان کبھی اپنے پسند کے کپڑے نہیں پہن پایا، اس کا مطلب جانتے ہیں آپ؟ میں نے انہیں کبھی کبھار مسکراتے تو دیکھا ہے لیکن کھلکھلاکر ہنستے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔

بابو ایک بار بیچ سڑک پر جم کر ناچے تھے ، جب مایاوتی وزیر اعلیٰ بنیں تھیں۔ مایاوتی تو چار بار وزیر اعلیٰ بن چکی ہیں لیکن بابو، بابو ہی رہ گئے۔ بابو کی ایک دن کی کمائی زیادہ سے زیادہ 230 روپے اور کم سے کم کی بات کریں تو کبھی کبھی تو پورے دن میں 10 روپے بھی نہیں کما پاتے۔ بابو بتاتے ہیں ’’ برادری کی بیٹی راجا بن گئی ، بڑے بڑے چودھری نیچے بیٹھے اور ہماری بیٹی اوپر، بس ہم تو اسی میں خوش ہیں۔‘‘

’’اب پتہ چلا سرکار صرف امیروں کی ہے‘‘

میں اکثر بابو کے پاس بیٹھ جاتا ہوں ، اس بار جب میں ان کے پاس بیٹھا تھا تو ان کی اہلیہ لمبا سا گھونگھٹ ڈالے ہاتھ میں دودھ کا ڈبا لے کر آئیں اوربابو کے کان میں کچھ کہا، لیکن بابو نے واپس بھیج دیا۔ کچھ دیر میں وہ پھر آ گئی تو انہوں نے کسی سے 10 روپے ادھار لے کر دے دئیے۔ یعنی 20 روپے کا دودھ لینے کے لئے بھی انہیں ادھار لینا پڑا۔

بابو کی دکان دلتوں کی چوپال کی طرح ہے جہاں ان کی اپنی پارلیمنٹ ہے۔ دلتوں کو سمجھنے کے لئے یہ ایک اسکول بھی ہے۔ 80 سال کے آشارام اور 66 سال کے نیمی یہاں دو گھنٹے سے بحث کر رہے ہیں۔ نیمی کی پنشن بند ہو گئی ہے جبکہ آشارام کو ابھی تک مل رہی ہے۔ آشارام کاجوان بیٹا ڈیڑھ سال سے گھر سے غائب ہے، وہ چمولی کام کرنے گیا تھا۔ نیمی نے شادی نہیں کی۔ چونکہ آشارام کو پنشن مل رہی ہے اس لئے نیمی اس سے 10 روپے ادھار مانگ رہا ہے لیکن آشارام نہیں دے رہا، بابو کے مطابق یہ سلسلہ پچھلے 2 گھنٹے سے چل رہا ہے۔ بہت منت کرنے کے بعد وہ نیمی کو 4 روپے دیتا ہے۔ نیمی کو 10روپے چائے پینے کے لئے چاہئیں لیکن چار روپے میں اسے کوئی چائے نہیں دیگا۔

اتر پردیش کی سابقہ سماجوادی پارٹی کی حکومت نے نیمی جیسے ہزاروں بوڑھوں کے لئے 500 روپے ماہانہ پنشن کی اسکیم چلائی تھی جسے صوبے کی موجودہ یوگی حکومت نے بند کردیا ہے۔ ویسے آشا رام کو پنشن مل رہی ہے، بلکہ اس کو 1000 روپے ماہانہ ملتے ہیں۔ آشارام کی پنشن بی ایس پی حکومت کے دوران طے ہوئی تھی جو ابھی تک جاری ہے۔ اسی طرح کے مسائل سےرتن سنگھ بھی گھرے ہوئے ہیں جو ان دونوں کی سن تو رہے ہیں لیکن سر پکڑ کر بیٹھے ہیں ۔ وہ زیادہ دور تک پیدل نہیں چل سکتے اور نہ ہی اخبار پڑھ پانے کے قابل رہے اور نہ ہی ان کی کوئی اولاد ہے، یوگی حکومت نے رتن سنگھ کی بھی پنشن بند کر دی ہے۔ ایسے بوڑھے لوگوں کی پنشن کیوں بند کی گئی یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔ وہیں پر بیٹھے ہوئے سابق نگر پنچایت کے ممبر راجندر سمجھا رہے ہیں کہ ہر حکومت اپنے حساب سے کام کرتی ہے اور پرانی حکومتوں کے فیصلوں کو پلٹ دیا جاتا ہے۔ نیمی کا کہنا ہے’’مودی حکومت تو ٹھیک ہے ،لیکن بینک والے میرا پیسا کھا رہے ہیں۔‘‘

لکھنؤ میں منعقدہ ’سماجوادی پنشن منصوبہ‘ کی افتتاحی تقریب میں شامل ہونے جاتی خواتین، پنشن کی اس اسکیم پر اب روک لگ چکی ہے۔
لکھنؤ میں منعقدہ ’سماجوادی پنشن منصوبہ‘ کی افتتاحی تقریب میں شامل ہونے جاتی خواتین، پنشن کی اس اسکیم پر اب روک لگ چکی ہے۔

راجندر کو برین ہیمریج ہوگیاہے انہوں نے سرکار سے مدد کی گہار بھی لگائی ،لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوا ہے۔ ان لو گوں کا کہنا ہے کہ یوگی سرکار نے بے سہارا لوگوں کی پنشن تک ڈکار لی ہے۔ راجندر کا کہنا ہے ’’جب چناؤ ہوئے تھے تو یہ سب ہندو بن گئے تھے، لیکن اب انہیں اچھی طرح پتہ چل گیا ہے کہ یہ سرکار صرف سرمایہ داروں کی ہے، غریبوں کی نہیں۔‘‘

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 Nov 2017, 7:58 PM