مولانا آزاد یونیورسٹی بھی سیاست کی شکار، چانسلر-وائس چانسلر آمنے سامنے
چند ماہ قبل مقررکئے گئے چانسلر فیروز بخت احمد اور پہلے سے موجود وائس چانسلر ڈاکٹر اسلم پرویز کے درمیان شدید اختلافات نے مرکزی ادارے کو تنازعہ میں لا کھڑا کیا ہے۔
چانسلر اور وائس چانسلر کے اختلافات کی وجہ سے مولانا آزاد قومی اردو یونیورسٹی ایک تنازعہ کا شکار ہے جس کی وجہ سے ادارہ بدنام ہو رہا ہے اور یونیورسٹی کے مستقبل کو لے کر سوال کھڑے ہو رہے ہیں۔
نئی دہلی:مسلم تعلیمی ادارے اور فیروز بخت احمد کا تنازعات سے چولی دامن کا رشتہ رہا ہے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیو رسیٹیاں اپنے اقلیتی کردار کو لے کر سرخیوں میں تو رہتی ہی ہیں ، ساتھ میں کبھی کبھی علی گڑھ میں تو قبرستان سے جناح بھی آ جاتے ہیں ۔ فیروز بخت صاحب بھی کبھی مولانا آزاد کے وارث کے معاملہ میں اخبار کی سرخیوں میں رہتے ہیں تو پھر کبھی عام آدمی پارٹی سے جڑنے اور پھر اس کی مخالفت کے لئے بھی سرخیوں میں رہتے ہیں اور اب مولانا آزاد قومی اردو یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے ساتھ اختلافات کو لے کر سرخیوں میں ہیں ۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی جانے جانے والے ظفر سریش والا کی جب چانسلر کی تین سالہ مدت ختم ہو گئی تو ان کے بعد مودی حکومت نے دہلی کے معروف پرائیویٹ اسکول ’ماڈرن پبلک اسکول ‘ کے انگریزی کے ٹیچر فیروز بخت کو اس ادارہ کا چانسلر بنادیا ۔ اب مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی(ایم اے این یویو) کے حالات یہ ہیں کہ چانسلر اور وائس چانسلر آمنے سامنے ہیں اور ظاہر ہے ایسی کسی بھی صورتحال سے اگر کسی کا نقصان ہونا ہے تو ہ طلباء اور ادارہ کا ہونا ہے ۔
ہندوستان کی تاریخ میں غالباً اپنی نوعیت کا ایسایہ پہلاواقعہ ہوگاجب کسی ادارہ کا چانسلر اپنے وائس چانسلر پر یہ الزام لگا رہا ہو کہ اس کو اس یونیورسٹی میں داخل نہیں ہونے دیا جا رہا ہے جس کے وہ چانسلر ہیں ۔ اس پر وائس چانسلر ڈاکٹر اسلم پرویز جن کی پانچ سالہ مدت میں سے دو سال کی مدت ابھی باقی ہے ان کا یہ کہنا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے بس کچھ ضابطہ ہیں جن پر عمل کیا جا رہا ہے اور کیونکہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ چانسلر کی کئی معاملوں میں مداخلت ادراہ کے کام کاج کو متاثر کر رہی ہے اس لئے کچھ ضابطوں پر عمل کیا جا رہا ہے اور ان کے یونیورسٹی میں نہ آنے یا جانے کی کوئی بات ہی نہیں ہے ۔
1998میں مولاناآزادنیشنل یونیورسٹی کاقیام پارلیمانی ایکٹ کے تحت عمل میں آیاتھا۔ یونیورسٹی کے قیام کا مقصداردو زبان کی ترقی اور فروغ تھا۔ نیز فاصلاتی و روایتی طرز میں اردو ذریعہ تعلیم میں تکنیکی و پیشہ ورانہ تعلیم فراہم کرنا تھا۔ مگرموجودہ وقت میں یہ ادارہ سیاست کاشکارہوتا نظرآرہا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ادارہ سیاست کا شکار اس لئے ہو رہا ہے کہ چانسلر کی تقرری میں تعلیمی پس منظر سے زیادہ سیاسی پس منظر کو اہمیت دی گئی ہے ۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے ظفر سریش والا ہوں یا فیروزبخت دونو ں کو ہی بی جے کا قریبی مانا جاتا ہے ۔
موجودہ تنازعہ کے تعلق سے چانسلرفیروزبخت احمد کا کہنا ہے کہ’’ وائس چانسلر ڈاکٹر اسلم پرویز نے میرے یونیورسٹی کیمپس میں داخلہ پرپابندی لگا دی ہے ‘‘۔واضح رہے کہ فیروز بخت احمد کو گزشتہ 17مئی 2018کو صدر جمہوریہ ہند کی جانب سے یونیورسٹی میں چانسلر مقررکیا گیا تھا۔ان کے مطابق’’ میرے ذہن میں اس یونیورسٹی کو اعلیٰ مقام پر لے جانے اور دہلی، کولکتہ و ممبئی یونیورسٹیوں کے متوازن کھڑا کرنے کے لئے ایک مکمل خاکہ موجود ہے ، شاید وائس چانسلر صاحب کو وہ پسند نہیں آیا اس لئے وہ ایسا کر رہے ہیں ‘‘۔
فیروزبخت کے مطابق یہ نہایت ہی افسوس کا مقام ہے کہ وائس چانسلرکو چانسلر کی ان سرگرمیوں سے نہ جانے کون سی رنجش پیدا ہو گئی کہ انہوں نے اپنے سے اوپر پوزیشن والے چانسلر کو پے در پے ایس ایم ایس کر دیئے کہ ان سرگرمیوں کے لئے یونیورسٹی کیمپس میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے اور یہ کہ وہ یہاں سال میں محض ایک مرتبہ یونیورسٹی میں تقسیم اسناد کی تقریب (کانووکیشن) میں تشریف لائیں اور وہ بھی اس وقت آ سکتے ہیں جب انہیں بلاوا بھیجا جائے ۔ فیروز بخت کا کہنا ہے کہ ’’ اگر چانسلر نے بغیر دعوت نا مہ کے کیمپس میں قدم رکھا تو ان کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا جائےگا‘‘۔
ڈاکٹر اسلم پرویز جو دہلی کے معروف کالج ڈاکٹر ذاکر حسین کالج کے پرنسپل رہ چکے ہیں ، جب ’قومی آواز‘ نے ان سے رابطہ کیا او ر موجود ہ تنازعہ کے تعلق سے پوچھا تو انہوں نے کہا ’’ ویسے تو یہ حقیقت ہے کہ ادارہ کو چلانے کی ذمہ داری وائس چانسلر کی ہوتی ہے ۔ چانسلر کا بطور ہیڈ ہمیشہ استقبال ہے لیکن روز کے کاموں میں مداخلت چانسلر کو زیب نہیں دیتی اور ساتھ ہی چانسلر کو سفارشوں وغیرہ سے بھی پرہیز کرنا چاہئے ‘‘۔
انہوں نے چانسلرکے الزامات پرانتہائی افسوس کااظہارکرتے ہوئے بتایا کہ چانسلرکے طورپریہاں آنے کے بعد خود فیروزبخت احمد ان سے سفارشیں کرنے لگے کہ اس کواُدھرٹرانسفر کرا دیجئے یہ میرے ’اس کا‘بچہ ہے،اس کی تقرری کرادیجئے،یہ پروگرام کرادیجئے،وہ پروگرام کرادیجئے اور اس طرح کی بے تکی باتوں نے ادارہ کو مشکل میں ڈال دیا ۔ کیونکہ ادارہ کی ساکھ اور ضابطوں سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر اسلم پرویز نے کہا کہ جن لوگوں نے ذاکر حسین کالج میں پرنسپل کا دور میرا دیکھا ہے وہ سب جانتے ہیں کہ میں سفارشوں میں یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی ایسے سمجھوتہ کرتا ہوں ۔ وائس چانسلر نے بتایا کہ ’’ میں نے ان کی باتیں نہیں مانیں تو ایک طبقہ میرے خلاف ہوگیا اورمیرے خلاف کئی طرح کی جانچ شرو ع ہو گئیں لیکن ان میں کچھ نہیں نکلا، ایک جانچ اب بھی چل رہی ہے۔’فون‘پربات کرتے ہوئے اسلم پرویزنے مزیدکہا کہ تقرری کے وقت فیروزبخت احمدنے مجھ سے خودکہاتھا کہ چانسلروغیرہ کیا ہوتا ہے مجھے نہیں معلوم ہے آپ بتادیجئے گا ۔
وائس چانسلر کے مطابق چانسلرنے ان سے کہاکہ وہ یہاں انگریزی پڑھانا چاہتے ہیں اور یہاں آنا چاہتے ہیں ۔اسلم پرویز کے مطابق ’’میں نے ان کے کہنے پرایک دوبارہوائی جہاز کا ٹکٹ بھیج دیالیکن بعد میں ادارے کے ہیڈوغیرہ نے اس پراعتراض کیا جس کی وجہ سے مجھے مجبوراً انہیں(چانسلر) کہنا پڑاکہ میں آپ کے لئے ٹکٹ کاانتظام نہیں کرسکتا‘‘ ۔اسلم پرویزنے کہاکہ ہمارے پاس فیروزبخت کے میسیج موجودہیں جن میں انہوں نے ٹکٹ مانگے ہیں۔
فیروز بخت احمد انگریزی کے ایک ٹیچر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی طور پر بھی متحرک رہتے ہیں اس لئے ان کے اوپر کئی طرح کے دباؤ ضرور رہتے ہوں گے اور اسلم پرویز ایک خالص اکیڈمکس کے آدمی ہیں اس لئے دونوں کے اختلافات ہونے لازمی ہیں۔ ان اختلافات کی وجہ سے ادارہ کو زبردست نقصان ہو سکتا ہے ۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ چانسلر کی تقرری کرتے وقت بنیادی چیزوں کو ذہن میں رکھے تاکہ ادارہ اور طلبا کو نقصان نہ ہو۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Sep 2018, 5:10 PM