پولینڈ کے طالب علم پر لگا ’سی اے اے‘ کی مخالفت کا الزام، ہندوستان چھوڑنے کا نوٹس جاری
طالب علم کے وکیل جینت مترا کا کہنا ہے کہ ’’یہ حکم منمانا ہے اور فطری انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ حکم آئین کی طرف سے دیئے گئے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔‘‘
شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاجی مظاہرہ صرف ہندوستان میں ہی نہیں ہو رہا ہے بلکہ کئی دوسرے ممالک میں مقیم ہندوستانی بھی مودی حکومت کے اس سیاہ قانون کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ کئی ایسے معاملے بھی سامنے آئے ہیں جس میں دوسرے ممالک کے شہری ہندوستان میں سی اے اے کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ گزشتہ دنوں پیش آیا جب سی اے اے مخالف ایک پروگرام میں پولینڈ کے ایک طالب علم کی شرکت کا معاملہ سامنے آیا۔ اس خبر کے پھیلنے کے بعد اس طالب علم کو ہندوستان چھوڑنے کا نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔
میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق پولینڈ کے طالب علم پر سی اے اے مخالفت کا الزام عائد کرتے ہوئے ہندوستان چھوڑنے کا نوٹس جاری کیا گیا۔ طالب علم نے اس نوٹس کے خلاف کولکاتا ہائی کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹا یا ہے۔ دراصل پولینڈ کے اس طالب علم پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے سی اے اے کی مخالفت میں ہوئی ایک ریلی میں حصہ لیا ہے۔ طالب علم نے کولکاتا ہائی کورٹ سے گزارش کی ہے کہ وہ مرکزی حکومت کے اس نوٹس پر روک لگائے اور ہندوستان چھوڑنے کا حکم واپس لینے کی ہدایت دے۔
جادھو پور یونیورسٹی سے ماسٹر ڈگری کر رہے پولینڈ کے اس طالب علم کا نام کامل سدسینسکی ہے اور اسے ایف آر آر او (فارنرس ریجنل رجسٹریشن آفس)، کولکاتا کی جانب سے 14 فروری کو ’ہندوستان چھوڑو نوٹس‘ ملا تھا جس میں اسے نوٹس حاصل ہونے کے 14 دن کے اندر ہندوستان چھوڑنے کے لیے کہا گیا تھا۔ طالب علم نے ہائی کورٹ میں داخل اپنی عرضی میں نوٹس کو اثرانداز ہونے سے روکنے کی درخواست کی ہے۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ طالب علم مبینہ طور سے حکومت مخالف سرگرمیوں میں شامل تھا، جو کہ ویزا ضابطوں کی خلاف ورزی ہے۔ حالانکہ طالب علم نے اس الزام کو خارج کیا ہے۔
طالب علم کے وکیل جینت مترا نے عدالت کے سامنے کہا کہ دسمبر 2019 کو کامل سدسینسکی کو جادھپور یونیورسٹی کے دیگر طلبا کے ساتھ شہر کے نیو مارکیٹ علاقہ میں ایک پروگرام میں جانے کے لیے راضی کیا گیا تھا۔ وکیل نے کہا کہ اسے جب یہ معلوم ہوا کہ پروگرام مختلف طبقات کے ذریعہ منعقد ایک پرامن مظاہرہ تھا، تو اس نے خود کو طلبا کے گروپ سے الگ کر لیا اور ناظرین کی صف میں کھڑا ہو گیا۔ طالب علم کا دعویٰ ہے کہ وہاں ایک شخص نے اس سے کچھ سوال پوچھے اور اس کی تصویر لی۔ بعد میں اسے پتہ چلا کہ وہ ایک بنگالی روزنامہ کا فوٹو جرنلسٹ ہے۔ اس اخبار نے طالب علم کی تصویر اور کچھ خبریں شائع کیں۔ طالب علم کے وکیل مترا کا دعویٰ ہے کہ رپورٹ میں کچھ بیانات کو غلط طریقے سے بتایا گیا ہے۔ مترا کا کہنا ہے کہ ’’یہ حکم منمانا ہے اور فطری انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ حکم آئین کی طرف سے دیئے گئے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔