بجٹ میں غریبوں و متوسط طبقہ کے لیے ’کچھ نہیں‘، یہ سرمایہ داروں کا بجٹ ہے: پی چدمبرم
پی چدمبرم نے اس بات پر حیرانی ظاہر کی کہ غریبوں کی مدد کے لیے، روزگار پیدا کرنے کے لیے، مہنگائی پر کنٹرول کرنے کے لیے، غریبوں تک پیسہ پہنچانے کے لیے بجٹ میں ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا۔
مرکزی وزیر مالیات نرملا سیتارمن کے ذریعہ پیش کردہ بجٹ 2022 کو ماہرین کے ذریعہ لگاتار تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس درمیان سابق مرکزی وزیر مالیات اور کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے واضح لفظوں میں کہا کہ بجٹ 2022 میں غریبوں، بے روزگاروں، کسانوں، مزدوروں اور متوسط طبقہ کے لیے ’کچھ نہیں‘ ہے، یہ پوری طرح سے سرمایہ داروں کا بجٹ ہے۔
پی چدمبرم نے ان خیالات کا اظہار ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’وزیر مالیات اور مرکزی حکومت کے سامنے سات آٹھ اہم پہلو تھے جن کی طرف انھیں خصوصی توجہ دینے کی ضرورت تھی، لیکن اس تعلق سے کچھ بھی تذکرہ نہیں کیا گیا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’حکومت کے مطابق ہندوستانی معیشت 20-2019 کی سطح پر آج بھی برقرار ہے۔ یعنی دو سال بغیر کسی ترقی کے یونہی ختم ہو گئے۔ کروڑوں ملازمتیں چلی گئیں۔ 60 لاکھ چھوٹی صنعتیں ختم ہو گئیں۔ 84 فیصد گھروں کی آمدنی ختم ہو گئی۔ فی کس آمدنی 1 لاکھ 8 ہزار سے کم ہو کر 1 لاکھ 7 ہزار ہو گئی۔ 4.60 کروڑ لوگ غریبی لائن سے نیچے دھکیل دیے گئے۔ پڑھنے والے بچوں کا (خصوصاً دیہی علاقوں کے بچوں کا) مستقبل تاریک ہو گیا۔ بے روزگاری شہروں میں 8 فیصد پار کر گئی اور گاؤں میں 6 فیصد۔ مہنگائی 12 فیصد کو پار کر گئی۔ یہ ایسے موضوعات ہیں جن پر حکومت کو توجہ دینی چاہیے تھی، لیکن کسی مدد کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔‘‘
کانگریس لیڈر نے کہا کہ اس بجٹ کے لیے اگر مختصر میں کچھ کہا جائے تو وہ ہوگا ’کچھ نہیں‘۔ یعنی یہ بجٹ جو مرکزی وزیر مالیات نے پیش کیا ہے وہ کسی بھی طرح عوام کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ جس انداز کا بجٹ پیش کیا گیا ہے اس سے وزیر مالیات اور مرکزی حکومت کا ضدی پن، ان کی سخت روی اور بے دردی کا اظہار ہوتا ہے۔ پی چدمبرم آگے کہتے ہیں کہ ’’ملک کے غریبوں کے تئیں، ملازمت پیشہ لوگوں کے تئیں، ملک کے متوسط طبقہ کے تئیں، کسانوں کے تئیں، قبائلیوں کے تئیں اور دیہی علاقوں و شہروں میں رہنے والے عام مزدوروں کے تئیں ذرا بھی ہمدردی ظاہر نہیں کی گئی۔ یہ بجٹ اس ملک کے لوگوں کے ساتھ بھدّا مذاق ہے۔‘‘
پی چدمبرم نے اس بات پر بھی حیرانی ظاہر کی کہ غریبوں کی مدد کے لیے، روزگار پیدا کرنے کے لیے، مہنگائی پر کنٹرول کرنے کے لیے، غریبوں تک پیسہ پہنچانے کے لیے بجٹ میں ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا۔ حتیٰ کہ بجٹ میں کسی بھی طبقہ کو ٹیکس ریلیف دینے کے لیے کوئی لفظ نہیں کہا گیا۔ ایسا لگتا ہے جیسے عوامی فلاح کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا ہے۔
سابق مرکزی وزیر مالیات نے پریس کانفرنس میں اس طرف بھی توجہ مبذول کرائی کہ ہر طرح کی راحت اور مدد یعنی سبسیڈی میں کمی کر دی گئی جو ظاہر کرتی ہے کہ بجٹ عوام مخالف ہے۔ مثلاً پٹرولیم مصنوعات میں گزشتہ سال کے مقابلے 704 کروڑ روپے کی کٹوتی کی گئی، کسان کی کھاد سبسیڈی میں 35 ہزار کروڑ روپے کی کٹوتی ہوئی، غریبوں کو ملنے والے راشن کی دکان پر کھانے میں 80 ہزار کروڑ کی کٹوتی ہوئی، کسان کی انشورنس اسکیم میں 500 کروڑ روپے کی کٹوتی کی گئی، یہاں تک کہ مزدوروں کی نریگا اسکیم کے اندر بھی 25 ہزار کروڑ روپے کاٹ لیے گئے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔