سی بی آئی پر بھروسہ ختم! چندرا بابو نائیڈو کے بعد ممتا بنرجی نے بھی لگائی لگام
کانگریس الزام لگاتی رہی ہے کہ مودی حکومت سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے سی بی آئی کا غلط استعمال کر رہی ہے، اور اب سی بی آئی میں پیدا بحرانی صورتحال نے اس ایجنسی پر مزید سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے 16 نومبر کی صبح جب سی بی آئی کو ریاست میں بلااجازت داخل ہونے پر پابندی عائد کی تو اس فیصلے نے لوگوں کو جہاں حیران کر دیا تھا وہیں یہ بھی ظاہر کر دیا تھا کہ سی بی آئی پر چندرا بابو نائیڈو کا بھروسہ ختم ہو گیا ہے۔ لیکن 16 نومبر کی رات تک جیسے ہی مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے ذریعہ بھی ریاست میں سی بی آئی کی ’انٹری‘ بند کرنے کی خبر پھیلی، اس بات پر تقریباً مہر سی لگ گئی کہ اب سی بی آئی پر اعتماد کرنا ریاستوں کے لیے مشکل ہو رہا ہے اور ریاستوں کے سربراہان نہیں چاہتے کہ بلااجازت وہ کسی بھی معاملے کی جانچ کریں۔
یہاں دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ سی بی آئی کو ویسے بھی کسی معاملے کی جانچ کے لیے صرف تین طرح سے اجازت حاصل ہے۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ اسے جانچ کا حکم دے، دوسرا طریقہ ہائی کورٹ کے ذریعہ اجازت ملنے کے بعد جانچ کرنے کا ہے، اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ریاستی حکومت کسی معاملے کی جانچ کے لیے سی بی آئی سے کہے۔ لیکن سی بی آئی چونکہ انتہائی اہم جانچ ایجنسی ہے اور ہندوستان میں اس پر مکمل اعتماد کیا جاتا رہا ہے اس لیے ریاستوں کے ذریعہ ایک ’عام رضامندی‘ تحریری شکل میں اسے دی گئی ہے۔ اس رضامندی کی وجہ سے یہ طے ہوتا ہے کہ سی بی آئی ریاستی حکومت سے کوئی خصوصی اجازت لیے بغیر بھی ریاست میں جانچ یا چھاپہ ماری کر سکتی ہے۔ اسی عام رضامندی کو آندھرا پردیش اور مغربی بنگال کے وزرائے اعلیٰ نے واپس لے لیا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ بغیر ریاستی حکومت کی اجازت کے اب ان کی انٹری نہیں ہو پائے گی۔ گویا کہ اب سی بی آئی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی اجازت ملنے پر ہی آندھرا پردیش یا مغربی بنگال میں قدم رکھ سکتی ہے۔
دہلی اسپیشل پولس اسٹیبلشمنٹ قانون کے تحت کام کرنے والی سی بی آئی کی انٹری آندھرا پریش میں بند کرنے کے بعد بی جے پی نے اسے بھلے ہی غلط ٹھہرایا ہو، لیکن اس وقت جو کچھ سی بی آئی میں چل رہا ہے، اس کے بعد اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عام لوگوں کا بھی بھروسہ سی بی آئی سے ڈگمگایا ہے۔ جس رشوت خوری یا بدعنوانی کی جانچ سی بی آئی کرتی رہی ہے، اس کے اعلیٰ افسران ہی جب رشوت خوری اور بدعنوانی کے الزامات میں پھنس جائیں تو بھروسہ ٹوٹنا لازمی بھی ہے۔
ویسے چندرا بابو نائیڈو نے پہلے ہی مرکز کی مودی حکومت پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ سی بی آئی کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ اب جب کہ سی بی آئی خود بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے، تو چندرا بابو نائیڈو کا فیصلہ بہت زیادہ حیران کرنے والا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ممتا بنرجی کو اس کی خبر ملی تو انھوں نے اپنی پارٹی میٹنگ کے دوران اس فیصلے کی حمایت کی اور کہا کہ ’’چندرا بابو نائیڈو نے بالکل درست کیا۔ بی جے پی اپنے سیاسی مفادات اور بدلے کے لیے سی بی آئی و دیگر ایجنسیوں کا استعمال کر رہی ہے۔‘‘ شاید ممتا بنرجی کو یہ فیصلہ بہت موزوں لگا اسی لیے انھوں نے بھی فوری طور پر سی بی آئی پر قدغن لگانے کا فیصلہ لے لیا۔ حالانکہ اس تعلق سے سی بی آئی ذرائع کا یہی کہنا ہے کہ فی الحال انھیں کوئی نوٹیفکیشن نہیں ملا ہے، لیکن خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے ذرائع نے اس تعلق سے تصدیق کی ہے۔
بہر حال، یہ تو طے ہے کہ سی بی آئی کی ساکھ پر داغ لگ چکا ہے اور مودی حکومت میں جن اداروں کی مٹی پلید ہوئی ہے ان میں سی بی آئی بھی شامل ہو گئی ہے۔ کانگریس پہلے سے ہی اس سلسلے میں بی جے پی پر الزام عائد کرتی رہی ہے اور جب آندھرا پردیش و مغربی بنگال حکومت کے ذریعہ سی بی آئی پر پابندی عائد کر دی گئی تو پارٹی لیڈر پون کھیڑا نے نامہ گاروں سے کہا کہ ’’یہ موجودہ وقت میں انتہائی سنگین ایشو ہے۔ جن دو لوگوں نے یا ڈھائی لوگوں نے سی بی آئی کو اور ایسی دیگر ایجنسیوں کو اپنی پرائیویٹ آرمی بنا لیا ہے، اس کا جواب انھیں دینا چاہیے۔‘‘ ظاہر ہے کہ کانگریس کو چندرا بابو نائیڈو اور ممتا بنرجی کے فیصلے سے کوئی حیرت نہیں ہے اور وہ بھی سی بی آئی پر مرکزی حکومت کے دبدبہ سے مایوس ہے۔ اگر آئند ہ دنوں میں کچھ دیگر ریاستیں بھی اپنے یہاں سی بی آئی کے داخلے پر پابندی لگا دیں تو کوئی حیرانی کی بات نہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 17 Nov 2018, 5:09 PM