کشمیری پنڈت ملازمین میں حکومت کی بے حسی سے مایوسی، جموں و کشمیر میں ’چنڈی گڑھ نما‘ یوٹی کے قیام کا مطالبہ

ہندوستان نے پیر کے روز ایک طرف جہاں آزادی کا 75ویں سالگرہ کا جشن منایا، وہیں وسری طرف پی ایم پیکیج کے تحت تقرری پانے والے ہزاروں کشمیری پنڈتوں نے اپنی حالت زار اور مصائب پر ماتم کیا

جموں میں دھرنا دے رہے کشمیری پنڈت ملازمین سے خطاب کرتے ڈاکٹر اگنی شیکھر / ٹوئٹر / @Batt_kot
جموں میں دھرنا دے رہے کشمیری پنڈت ملازمین سے خطاب کرتے ڈاکٹر اگنی شیکھر / ٹوئٹر / @Batt_kot
user

قومی آواز بیورو

ہندوستان نے پیر کے روز ایک طرف جہاں آزادی کا 75ویں سالگرہ کا جشن منایا، دوسری طرف پی ایم پیکیج کے تحت تقرری پانے والے ہزاروں کشمیری پنڈتوں نے اپنی حالت زار اور مصائب پر ماتم کیا۔ جموں میں شدید بارش کے درمیان، کچھ کشمیری پنڈت لوگ توجہ مبذول کروانے کے لیے جشن آزادی کا بائیکاٹ کرنا چاہتے تھے، تاہم بیشتر جشن میں قوم کے شانہ بشانہ رہے اور ترنگا لہراتے ہوئے اپنے خیموں میں قومی ترانہ بجایا۔

وہ گزشتہ 100 دنوں سے دھرنے پر بیٹھے ہیں لیکن مرکزی حکومت یا منوج سنہا کی قیادت والی ایل جی انتظامیہ کی طرف سے کوئی ان کی روداد سننے کے لئے نہیں پہنچا۔

احتجاج کرنے والے کشمیری پنڈتوں کو محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی کی زیر قیادت اس مرکزی حکومت نے ان سے آنکھیں پھیر لی ہیں، جس نے بالی ووڈ کی ایک ایسی فلم ’کشمیر فائلز‘ کی فخر کے ساتھ تشہیر کی، جو وادی میں دہشت گردی کے عروج کے دوران پنڈتوں کی حالت زار اور اجتماعی قتل پر مبنی ہے۔


حکومت کی طرف سے دکھائی جانے والی بے حسی سے مایوس ہو کر اب وہ یہ مانتے ہیں کہ ان کے مسئلے کا واحد حل کشمیری پنڈتوں کے لیے جموں و کشمیر میں چنڈی گڑھ جیسا علیحدہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانا ہے۔

نیشنل ہیرالڈ سے فون پر بات کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے احتجاج کرنے والے پنڈتوں سے خطاب کرنے والے پنون کشمیر (پی کے) کے کنوینر ڈاکٹر اگنی شیکھر نے کہا، "تمام کشمیری پنڈتوں کے لیے چنڈی گڑھ کی طرح مرکز کے زیر انتظام علاقے کا قیام ایک مستقل حل ہوگا۔‘‘

یہ بتاتے ہوئے کہ 'علاقہ' بحران کے وقت فوج کو اخلاقی مدد فراہم کرے گا، اگنی شیکھر نے کہا، ’’وقتی طور پر مہاجر کشمیری پنڈتوں کو منتقل کریں یا انہیں کمشنر کے دفتر سے منسلک کیا جائے۔‘‘

خود 90 کی دہائی میں دہشت گرد حملے میں بچ جانے والے اگنی شیکھر نے ’’ہم اپنے بچوں کے لیے کسی بڑی چیز کا مطالبہ نہیں کر رہے، ہم صرف حالات سازگار ہونے تک کسی محفوظ مقام پر منتقل ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘‘

دہلی میں مقیم ایک کشمیری صحافی کہتے ہیں کہ راہل بھٹ کے قتل کے بعد برادری دھرنا دینے پر مجبور ہوئی۔ ان کا کہنا ہے ’’اگرچہ اگنی شیکھر کے پیش کردہ خیال کو زیادہ حمایت حاصل نہیں ہوئی، تاہم انتظامیہ کشمیری پنڈتوں میں بی جے پی کے خلاف بڑھتی ہوئی ناراضگی سے خوب واقف ہے۔‘‘ راہل بھٹ کو وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے چاڈورہ میں واقع ان کے دفتر کے اندر بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا۔


پنڈتوں کا کہنا ہے کہ وادی میں خوف کا ماحول ہے۔ ٹارگٹ کلنگ (مہاجر ملازمین کی) نے صدمے میں اضافہ کیا ہے۔ کشمیری مہاجر برادری سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی ملازم دور دراز علاقوں میں نہیں جانا چاہتا۔

ان مہاجر ملازمین میں سے بیشتر نے اپنی نئی پوسٹنگ کے لئے جوائننگ بھی نہیں کی ہے، تاہم انہیں ان کی رضامندی کے بغیر ان کی موجودہ پوسٹنگ کی جگہ سے فارغ کر دیا گیا ہے! اگنی شیکھر نے الزام عائد کیا کہ بی جے پی لیڈروں سے متعلق مہاجر ملازمین کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ اگنی شیکھر نے کہا، ’’سنہا کے زیر انتظام جموں و کشمیر انتظامیہ ٹرانسفر اور پوسٹنگ میں امتیازی سلوک کی اجازت دے رہی ہے۔’’

یہ پوچھے جانے پر کہ آیا آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد زمینی سطح پر حالات میں بہتری آئی ہے یا نہیں؟ اگنی شیکھر نے جواب دیا، ’’سب سے پہلے ہمیں اسے آرٹیکل 370 کی منسوخی نہیں کہنا چاہئے کیونکہ یہ کافی حد تک نافذ العمل ہے۔ صرف آئینی اور قانونی حیثیت تبدیل ہوئی ہے۔ بالخصوص پنڈتوں کے لیے مجھے زمین پر کوئی ساختی تبدیلی نظر نہیں آتی۔‘‘

دریں اثنا، یہ بات سامنے آئی ہے کہ پنڈتوں کی پریشانیوں میں اضافہ کرتے ہوئے، یو ٹی (یونین ٹریٹری) انتظامیہ نے ان کی تنخواہیں واگزار کرنا بند کر دی ہیں۔ اگرچہ ان ملازمین کی صحیح تعداد کا تعین اور آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی، جنہیں تنخواہ حاصل نہیں ہوئی ہے، تاہم ایک اندازے کے مطابق یہ تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔


کشمیری مہاجر ملازمین کے مطابق، ’’محکمہ خزانہ، محکمہ تعمیرات عامہ اور روڈ اینڈ بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ، محکمہ تعلیم اور طبی صحت، ڈائریکٹر دیہی ترقی محکمہ، ڈائریکٹر زراعت، محکمہ پلاننگ/ریونیو ڈیپارٹمنٹ، پاور ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ اور ڈپٹی کمشنر، سری نگر میں بڑی تعداد میں کام کرنے والے ملازمین کو دو مہینے تک کی تنخواہ جاری نہیں کی گئی ہے۔

مظاہرین میں سے ایک نے بتایا کہ احتجاج کرنے والے پنڈتوں کے ایک وفد نے یہ مسئلہ متعلقہ حکام کے ساتھ اٹھایا ہے لیکن ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ اگنی شیکھر نے کہا ’’حکومت ہماری بے بسی کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ وہ ہمارے ساتھ بندھوا مزدوروں جیسا سلوک کر رہے ہیں۔‘‘

پی ایم پیکج کے تحت کشمیری پنڈتوں کی بازآبادکاری اس وقت کی اٹل بہاری واجپائی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے 2002-04 میں کی تھی۔ اس وقت مفتی محمد سعید سابقہ ​​ریاست جموں و کشمیر میں کانگریس کے ساتھ مخلوط حکومت کی سربراہی کر رہے تھے۔

انڈین ایکسپریس کی شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، پی ایم پیکج کے تحت کام کرنے والے تمام پنڈتوں کا پانچواں حصہ ہی ایسا ہے جو محفوظ مقام پر مقیم ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ’’اس اسکیم کے تحت پنڈت مہاجرین کے لیے فراہم کی گئی کل 6000 آسامیوں میں سے کل 5928 پر ہوئی ہیں۔ ان میں سے 1037 سے زیادہ محفوظ رہائش گاہوں میں نہیں رہتے۔ باقی لوگ ان کے لیے بنائے گئے محفوظ زون سے باہر کرایہ پر کوارٹر لینے پر مجبور ہیں۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر کام کے لیے بغیر سیکورٹی کے طویل فاصلے کا سفر بھی کرتے ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔