جامعہ-اے ایم یو طلبہ کو فوری راحت سے انکار! اعلیٰ عدالتوں کا پولیس اور حکومت سے جواب طلب

جامعہ تشدد معاملہ میں دہلی ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت اور دہلی پولیس سے جواب طلب کیا ہے، جبکہ اے ایم یو معاملہ میں الہ آباد ہائی کورٹ نے مرکز، یو پی حکومت، پولیس افسران اور وی سی سے جواب طلب کیا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی/ الہ آباد: شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے پر دہلی کی یونیورسٹی ’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے طلباء پر پولیس کی بربریت کے معاملہ پر جمعرات کے روز دہلی ہائی کورٹ اور الہ آباد ہائی کورٹ میں سماعت کی گئی۔ دہلی ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت اور دہلی پولیس کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کیا ہے اور معاملہ کی سماعت کے لئے 4 فروروی کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ غور طلب ہے کہ دہلی ہائی کورٹ نے جامعہ کے طلباء کو فوری راحت دینے سے انکار کر دیا اور معاملہ کو کافی دنوں کے لئے ٹال دیا ہے۔

جامعہ-اے ایم یو طلبہ کو فوری راحت سے انکار! اعلیٰ عدالتوں کا پولیس اور حکومت سے جواب طلب

ادھر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں کیمپس کے اندر طلبہ پر پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کے ضمن میں داخل مفاد عامہ کی عرضی پرسماعت کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے ریاست کی یوگی حکومت سے ایک ہفتے کے ا ندر جواب طلب کیا ہے۔ عدالت اب اس معاملے کی سماعت 2 جنوری کو کرے گی۔

چیف جسٹس گوند ماتھر اور جسٹس وویک ورما کی بنچ نے الہ آباد کے محمد امان خان کی پی آئی ایل پر جمعرات کو یہ ہدایت دی۔ وہیں دوسری جانب ریاستی حکومت کی جانب سے پی آئی ایل کی صحت پر سوال اٹھائے ہیں۔ حکومت کے مطابق اگر ہاسٹل کو زبردستی خالی کرایا گیا ہے تو کوئی متأثرہ طالب علم نے عدالت کا دروازہ کیوں نہیں کھٹکھٹایا۔ یہ الزام کی کچھ طالب علم لاپتہ ہیں ایسے طلبہ کے اہل خانہ عدالت کیوں نہیں گئے۔ عرضی میں من مانی اور بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ حالانکہ عدالت نے پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج پر حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔

جامعہ-اے ایم یو طلبہ کو فوری راحت سے انکار! اعلیٰ عدالتوں کا پولیس اور حکومت سے جواب طلب

جامعہ تشدد معاملہ پر دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس سی ہری شنکر نے متعدد عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے وزارت داخلہ، دہلی پولیس اور جی این سی ٹی ڈی کو جواب داخل کرنے کے لئے نوٹس جاری کیا ہے۔ تاہم، فی الحال عدالت نے طلبہ کے حق میں کوئی حکم جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ عرضی گزاروں کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ طلباء کے خلاف پولیس کی کارروائی بند کی جائے۔ عدالت نے طلبا کی گرفتاری پر روک لگانے کے مطالبے کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ عرضی گزاروں کی جانب سے سلمان خورشید بھی عدالت میں پیش ہوئے۔


جامعہ تشدد پر سماعت کے دوران طلباء کی پیروی کرتے ہوئے وکلاء نے عدالت سے کچھ ویڈیوز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان ویڈیوز میں کچھ پولیس اہلکار بس کی سیٹ پر کچھ ڈال رہے ہیں، تاکہ یہ کہا جا سکے کہ طالب علموں نے بس کو نذر آتش کیا ہے اور پھر پولیس کو کارروائی کرنے کا موقع فراہم ہو جائے۔ علاوہ ازیں وکلاء نے یہ بھی بتایا کہ اسی اثنا میں کچھ پولیس اہلکاروں نے موٹرسائیکلیں بھی توڑی ہیں۔ انہوں نے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی کارروائی کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔

ادھر، اے ایم یو میں تشدد کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں امان خان نے عرضی داخل کر کے یونیورسٹی احاطے سے پولیس فورس کو فوراً واپس بلانے اور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج سے پورے واقعہ کی ابتدائی جانچ کرانے اور اس کی مانیٹرنگ ہائی کورٹ کی جانب سے کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ عرضی گزار کا کہنا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ طلبہ مولانا آزاد لائبریری کے نزدیک گیٹ کے اندر موجود تھے اور باہر پولیس نے بیریکیٹنگ کر رکھی تھی۔ پولیس طلبہ کو مشتعل کر رہی تھی۔


عرضی میں پولیس پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے طلبہ کو گندی گالیاں دیں اور ان کی بے رحمی کے ساتھ پٹائی کی جس میں 100 سے زیادہ طالب علم زخمی ہوگئے جن میں سے تین کی حالت کافی نازک ہے۔ زخمی طلبہ کو ٹراما سنٹر جواہر لال نہرو میڈیکل کالج اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے جہاں ان کا علاج چل رہا ہے۔

یونیورسٹی کو بند کرنے کا اعلان کر کے ہاسٹل کو زبردستی خالی کرایا گیا ہے۔ کچھ طالب علم کشمیر، لداخ اور مشرقی ریاستوں سے آئے ہوئے ہیں۔ ہاسٹل خالی کرنے کے لئے ان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ کئی طالب علم لاپتہ ہیں جنہیں پولیس پر حراست میں رکھنے کا الزام ہے۔ عرضی میں پولیس پر ہراسانی کا الزام لگاتے ہوئے پورے معاملے کی عدالتی جانچ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔