ذات پر مبنی مردم شماری کو کوئی روک نہیں سکتا، ہندوستان کی آبادی کے مطابق پالیسی بنائی جائے: راہل گاندھی

راہل گاندھی نے کہا کہ ہم ذات پر مبنی مردم شماری کرائیں گے اور ریزرویشن پر 50 فیصد کی حد کو میں نہیں مانتا، اسے ہٹا دیا جائے گا۔

<div class="paragraphs"><p>’سنویدھان سمّان سمیلن‘ سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی، تصویر&nbsp;<a href="https://x.com/INCIndia">@INCIndia</a></p></div>

’سنویدھان سمّان سمیلن‘ سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی، تصویر@INCIndia

user

قومی آواز بیورو

’’مجھے موچی بھائی نے بتایا کہ مودی حکومت نے ایک نیا پروگرام شروع کیا ہے۔ ہمیں وہاں ٹریننگ کے لیے بلایا گیا، لیکن ہم ان کے ہی ٹرینر کو سکھا کر واپس آ گئے۔ کیونکہ ہم تو 40 سال سے موچی کا کام کر رہے ہیں۔ آج ملک میں چاہے حجاب، بڑھئی، پلمبر، موچی ہو یا کسان، سبھی کے پاس علم ہے، سب کے ہاتھ میں ہنر ہے۔ لیکن سسٹم میں ان سے کوئی بات ہی نہیں کرتا۔‘‘ یہ بیان آج کانگریس رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی نے پریاگ راج میں منعقد ’سنویدھان سمّان سمیلن‘ (احترامِ آئین تقریب) سے خطاب کرتے ہوئے دیا اور کہا کہ ہندوستان کی بڑی آبادی ہنرمند اور باصلاحیت ہے، لیکن اسے موقع ہی نہیں ملتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری کرائی جائے، اور اسے کرانے سے ہمیں کوئی روک نہیں سکتا۔

پریاگ راج میں منعقد ’سنویدھان سمّان سمیلن‘ میں راہل گاندھی نے زور دے کر کہا کہ ہندوستان کی آبادی کے مطابق پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے بہت اہم ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری کرائی جائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ریزرویشن پر 50 فیصد حد کو میں نہیں مانتا، اسے ہٹا دیا جائے گا۔ جس کی جتنی آبادی ہے اس کے حساب سے پالیسی بنائی جانی چاہیے۔ اگر لوگوں کی آبادی کے حساب سے پالیسیاں نہیں بنائی جاتی ہیں تو ضرورت مندوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ملے گا اور اس طرح کی پالیسی بنانے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔‘‘


راہل گاندھی نے مرکزی حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ملک کی 70 فیصد آبادی کے حساب سے پالیسیاں نہیں بنائی جا رہی ہیں۔ مرکزی حکومت کی پالیسیاں صرف چنندہ سرمایہ داروں اور 30 فیصد لوگوں کے لیے ہے۔ بیشتر آبادی کو مرکزی حکومت کے منصوبوں کا فائدہ ہی نہیں مل رہا۔ آئین کہتا ہے کہ سبھی شہری ایک برابر ہیں اور سبھی کو برابر حقوق ملنے چاہئیں، لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ ریزرویشن کی باتیں ہمیشہ ہوتی ہیں، لیکن کبھی بھی انھیں موقع نہیں ملتا۔ لیٹرل انٹری ہو جاتی ہے، اور میں آپ کو گارنٹی دے رہا ہوں کہ لیٹرل انٹری میں 90 فیصد والا آپ کو کوئی نہیں ملے گا۔

راہل گاندھی نے اپنی بات کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا کہ 90 فیصد والے لوگ تو سسٹم کا حصہ ہی نہیں ہیں۔ ان کے پاس ضروری ہنر ہے، لیکن وہ سسٹم سے جڑے ہوئے نہیں ہیں۔ اس لیے ہم ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کانگریس رکن پارلیمنٹ نے مزید کہا کہ ہم الگ الگ طبقات کی لسٹ چاہتے ہیں۔ ہمارے لیے ذات پر مبنی مردم شماری صرف مردم شماری نہیں ہے، یہ پالیسی بنانے کی بنیاد ہے۔ صرف ذات پر مبنی مردم شماری کرنا ہی کافی نہیں ہے، یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ملکیت کی تقسیم کس طرح ہو رہی ہے۔ یہ پتہ لگانا بھی ضروری ہے کہ نوکرشاہی، عدلیہ، میڈیا میں او بی سی، دلتوں کی شراکت داری کتنی ہے۔


راہل گاندھی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ میں نے ’حسینۂ ہند‘ (مس انڈیا) کی فہرست نکالی۔ مجھے لگا تھا کہ اس میں تو ایک دلت یا قبائلی خاتون کا نام ہوگا، لیکن اس فہرست میں بھی نہ تو دلت اور نہ ہی کسی او بی سی کا نام مجھے دکھائی دیا۔ راہل گاندھی نے واضح لفظوں میں کہا کہ ’’میڈیا، فلم انڈسٹری اور مس انڈیا بننے والوں میں 90 فیصد والوں کی درست تعداد پتہ چلنی چاہیے۔ آئین کو 10 فیصد طبقہ والوں نے نہیں بلکہ 100 فیصد والوں نے بنایا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’ملک کے 500 سب سے بڑے صنعت کاروں کی فہرست میں ایک بھی دلت، قبائلی اور پسماندہ طبقہ کا شخص نظر نہیں آئے گا۔ عدلیہ، کارپوریٹ اور میڈیا سیکٹر میں بھی یہی حال ہے۔ اسی لیے میں نے کہا کہ ذات پر مبنی مردم شماری ہمارے لیے صرف گنتی نہیں ہے، یہ ہمارے لیے پالیسی فریم ورک ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔