آسان نہیں نتیش کمار کی راہ، حلیف پارٹیاں بھی نظر آ رہیں حریف!

ہندوستانی عوام مورچہ (سیکولر) کے قومی سربراہ و سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی اور وکاس شیل انسان پارٹی کے قومی صدر مکیش سہنی کب حمایت سے پاور بریک لے کر یو ٹرن مار دیں، کہا نہیں جا سکتا۔

نتیش کمار، تصویر یو این آئی
نتیش کمار، تصویر یو این آئی
user

نیاز عالم

بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ساتویں مرتبہ بہار کے مکھیا کی شکل میں ذمہ داری تو سنبھال لی ہے، لیکن اس مرتبہ ان کی راہ آسان نظر نہیں آ رہی ہے۔ اسمبلی انتخاب میں مہاگٹھ بندھن کے ساتھ کانٹے کا مقابلہ ہونے کے بعد کسی طرح این ڈی اے کی حکومت بن گئی۔ اس تعلق سے قسمت نے نتیش کمار کا ساتھ دیا، لیکن حکومت بننے کے بعد بھی اندیشوں کے بادل لگاتار منڈلاتے نظر آ رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے وزیر اعلیٰ پہلی بار تلوار کی دھار پر حکمرانی کے لیے چھوڑ دیے گئے ہوں۔ این ڈی اے میں ظاہری طور پر بھلے ہی نتیش کمار بڑے بھائی کے کردار میں نظر آ رہے ہوں، لیکن اندرخانے بی جے پی نے زبردست فیلڈنگ سیٹ کر رکھی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے دائیں و بائیں جانب دو دو نائب وزیر اعلیٰ، اور ساتھ ہی اسمبلی کے اسپیکر عہدہ کا جنتا دل یو کے ہاتھ میں نہیں ہونا بہت کچھ اشارہ کر رہا ہے۔ آزو-بازو دو دو نائب وزیر اعلیٰ تعاون کے لیے ہیں یا پریشانی میں کوئی کمی نہ ہو، اس کے لیے بیٹھے ہیں، معلوم نہیں۔

دوسری طرف ہندوستانی عوام مورچہ (سیکولر) کے قومی سربراہ و سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی اور وکاس شیل انسان پارٹی کے قومی صدر مکیش سہنی ایک اضافی لالچ محض پر کب حمایت سے پاور بریک لے کر یو ٹرن مار دیں، کہا نہیں جا سکتا۔


اتنا ہی نہیں، نتیش حکومت میں جنتا دل یو سے زیادہ سیٹ والی پارٹی بی جے پی میں بھی اپنے دم پر حکومت بنانے کے لیے ’منتھن‘ ضرور چل رہا ہوگا، یعنی حلیف پارٹیاں بھی حریف ہی معلوم پڑ رہی ہیں۔ بی جے پی کی بہار میں حکومت سازی سے متعلق خواہشات کا اندازہ وزیر مملکت اشونی چوبے کے اس بیان سے بھی صاف لگایا جا سکتا ہے جس میں انھوںنے کہا ہے کہ نتیش کمار اگر قومی سطح پر آتے ہیں تو ان کا قد اور بڑھ جائے گا۔ اگر وہ مرکز میں آئیں گے تو پی ایم نریندر مودی کا ہاتھ مضبوط کریں گے۔ بہار میں منتخب نمائندوں میں جسے نتیش کمار اہل سمجھیں گے انھیں اپنا جانشیں بنا سکتے ہیں۔ کسی بھی شیڈولڈ یا اعلیٰ ذات کے ہوں، انھیں وہ جانشیں بنا سکتے ہیں۔

ایک اور بات جو بہار اسمبلی انتخاب کے دوران لگاتار موضوع بحث رہی وہ یہ کہ اس انتخاب میں بی جے پی تین اتحادوں کے ساتھ کام کر رہی تھی۔ پہلا جنتا دل یو، دوسرا ایل جے پی اور تیسرا اے آئی ایم آئی ایم۔ انتخابی نتیجہ کے بعد یہ بات کہیں نہ کہیں اثر بھی رکھتی ہے۔ چراغ پاسوان نے جس طرح سے جنتا دل یو کے خلاف فیلڈنگ سیٹ کر کے 20 سے 30 سیٹوں پر سیدھے سیدھے نتیش کو نقصان پہنچایا تو وہیں اسدالدین اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی آیم نے مسلک ووٹ بینک میں ظاہری طور پر سیندھ ماری کر جنتا دل یو کو کمزور کیا۔ حالانکہ اویسی کی پارٹی کے ذریعہ مسلم ووٹ بینک میں سیندھ ماری کا اثر کہیں نہ کہیں مہاگٹھ بندھن پر بھی پڑا لیکن مجموعی طور پر اس کا فائدہ سب سے زیادہ بی جے پی کو ہی ہوا۔


ایسا نہیں ہے کہ حکومت میں اپنی کمزور حالت کا اندازہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو نہیں ہو رہا ہوگا۔ جس طرح سے انتخابی تشہیر کے دوران اور اب نئی حکومت بننے کے بعد اسمبلی کے پہلے اجلاس کے آخری دن وزیر اعلیٰ نتیش کمار غصے اور جھنجھلاہٹ میں نظر آئے، یہ کہیں نہ کہیں ان کے پانچ سال تک وزیر اعلیٰ بنے رہنے کو لے کر عدم تحفظ کے احساس کو ظاہر کر رہا ہے۔

دوسری طرف آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد بھی جیل سے جوڑ توڑ کا ماحول پیدا کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ حکومت کی فکر بڑھتی رہے، ایسی ہر ممکن کوشش وہ کرتے رہیں گے۔ ایسے حالات میں یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ نتیش کمار کی قیادت میں بنی نئی حکومت پہلے دن سے ہی وینٹی لیٹر پر نظر آ رہی ہے۔ نتیجہ جو بھی ہو، لیکن یہ صاف ہے کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار فی الحال تلوار کی دھار پر ہی چل رہے ہیں۔ یہ بھی تقریباً طے ہے کہ اس حکومت کی عمر طویل نہیں ہوگی۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ سیاست میں ناممکن کچھ بھی نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔